جزائر سے متعلق آرڈیننس کے خلاف درخواست پر وفاقی، صوبائی حکام کو نوٹسز جاری

اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2020
درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ جاری کردی آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 1 ، 97 اور 172 کی خلاف ورزی ہے—فائل فوٹو
درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ جاری کردی آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 1 ، 97 اور 172 کی خلاف ورزی ہے—فائل فوٹو

سندھ ہائیکورٹ نے وفاق کی جانب سے پاکستان لینڈ ڈیولمپنٹ اتھارٹی آرڈیننس کے ذریعے بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کرنے کے اقدام کو چیلنج کرنے والی درخواست پر وفاقی اور صوبائی حکام کو نوٹسز جاری کردیے۔

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے 23 اکتوبر کو درخواستوں پر مؤقف داخل کرنے کی ہدایت کے ساتھ متعلقہ ذمہ اداروں کو نوٹسز بھجوا دیے۔

مزید پڑھیں:سول سوسائٹی نے کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبے کو مسترد کردیا

ایڈووکیٹ شہاب استو نے سندھ ہائیکوٹ میں مؤقف اختیار کیا کہ جاری کردی آرڈیننس آئین کے آرٹیکل ون، 97 اور 172 کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے استدلال پیش کیا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد پانی 12 ناٹیکل مائل سے آیا تھا جو صوبے کا تھا اور کراچی کے ساحل کے ساتھ بنڈل اور بوڈو جزیرے سندھ کے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئین میں کسی بھی آرڈیننس کے ذریعے اس طرح کی ترامیم نہیں کی جاسکتی ہیں لیکن قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ آرڈیننس کے نفاذ کے بعد دونوں جزیرے رٹ کے دائرہ اختیار سے محروم ہوگئے ہیں کیونکہ یہ علاقے سندھ ہائیکورٹ اور نہ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ کار میں آئے ہیں۔

مزیدپڑھیں: سندھ حکومت نے جزائر خود وفاق کے حوالے کیے تھے، علی زیدی

درخواست میں کہا گیا کہ چونکہ اس آرڈیننس سے آئین کی متعدد شقوں کی خلاف ورزی ہورہی ہے لہذا آرڈیننس کو متنازع قرار دیا جائے۔

واضح رہے کہ صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں صرف دو ہفتوں بعد ہی صدر عارف علوی نے ریئل اسٹیٹ ٹائکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔

خیال رہے کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا۔

پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی، جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت نے جزائر سے متعلق وفاقی حکومت کا صدارتی آرڈیننس مسترد کردیا

وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر ’جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے'۔

پاکستان آئرلینڈ ڈیولیپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

آرڈیننس کے مطابق اتھارٹی قیام کے بعد کے 10 سال تک انکم ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہوگی، جیسا کہ دفعہ 30 میں لکھا ہے کہ 'کسی بھی دوسرے قانون میں درج ہونے کے باوجود، نوٹیفکیشن کے جاری ہونے کے اگلے 10 برسوں تک اتھارٹی اس کی آمدنی، منافع پر ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنی ہوگی'۔

پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے افعال پر سرسری نظر ڈالیں تو آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔

آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے۔

مزید پڑھیں: کراچی کا فراموش کیا گیا جزیرہ

اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکھٹے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے۔

مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے۔

پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔

پیپلز پارٹی کا ردعمل

دوسری جانب اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹ کی تھی کہ ان کی جماعت پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ سندھ اسمبلی میں بھی حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کرے گی۔

اس اقدام کو ’پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سندھ کے جزائر کا غیر قانونی الحاق' قرار دیتے ہوئے انہوں نے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ ’میں پوچھتا ہوں کہ یہ اقدام مقبوضہ کشمیر میں مودی کے اقدام سے کس طرح مختلف ہے؟

دریں اثنا، سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘۔

رضا ربانی نے اس آرڈیننس کے نفاذ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں