سندھ حکومت نے جزائر سے متعلق وفاقی حکومت کا صدارتی آرڈیننس مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2020
جزائر سندھ کے عوام، سندھ کی حکومت اور صوبے کی ملکیت ہیں، ترجمان حکومت سندھ — فوٹو: ڈان نیوز
جزائر سندھ کے عوام، سندھ کی حکومت اور صوبے کی ملکیت ہیں، ترجمان حکومت سندھ — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ کے ساحل سمندر کے قریب موجود جزائر کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے جاری کیے گئے صدارتی آرڈیننس کو مسترد کردیا۔

کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کابینہ نے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔

مزید پڑھیں:وفاق کے سندھ کے جزائر کا انتظام سنبھالنے کے اقدام پر تنقید

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں۔

ترجمان حکومت سندھ نے کہا کہ جو شخص یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ صوبائی حکومت نے سندھ کا مقدمہ نہیں لڑا اور اپنا قانونی حق استعمال نہیں کیا تو میں اس کی نفی کرتا ہوں اور برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے عوام کی ترقی کے لیے سندھ حکومت ہمیشہ بات کرنے کو تیار ہوتی ہے، اسی لیے وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے۔

مرتضیٰ وہاب نے جزائر کے حوالے سے وفاقی حکومت کو پیش کیے گئے سندھ حکومت کے نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پہلا نکتہ تھا کہ جزائر سندھ حکومت کی ملکیت ہیں اور ان جزائر کا استعمال آئین و قانون کے مطابق ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسرا نکتے کے مطابق جو ڈیولپمنٹ کی جائے گی اس کے شرائط سے ہمیں آگاہ کریں گے جس پر بات ہوگی پھر دیکھا جائے گا۔

تیسرے نکتے سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ ڈیولپمنٹ کے دوران وہاں کی مقامی آبادی، ماہی گیروں کے مفاد کو مقدم رکھا جائے گا تاکہ لوگوں کے حالات تبدیل ہوسکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے 2 ستمبر کو سندھ اور بلوچستان کے حقوق پر شب خون مارا جب انہوں نے کسی سے مشاورت اور کسی کو اعتماد میں لیے بغیر یہ آرڈیننس جاری کیا۔

مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد

انہوں نے کہا کہ جو چیز وفاق کی ملکیت نہیں ہے اس پر اپنی ملکیت ظاہر کی جو قانونی اعتبار سے غلط تھی اور اخلاقی اعتبار سے بھی غلط تھی۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ 2 ستمبر کو جاری ہونے والا آرڈیننس ایک روز قبل منظر عام پر آیا جس سے ان کی ایک اور بدنیتی ظاہر ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے غیر اخلاقی اور غیر قانونی کے ساتھ ساتھ ہمارے حق پر ڈاکا ڈالا تھا اس لیے یہ نہیں دکھا سکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں واضح کرنا چاہوں گا کہ سندھ کابینہ نے آئین پاکستان کے نکات کی روشنی میں ایک بار پھر فیصلہ کیا ہے کہ جزائر سندھ کے عوام، سندھ کی حکومت اور صوبے کی ملکیت ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ کابینہ نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

ترجمان حکومت سندھ نے کہا کہ اسی لیے ہم نے اس آرڈیننس کو مسترد کردیا ہے اور وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے، وہ بھی ایک آئینی حکومت ہے اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے خیرسگالی کے طور پر جزائر سے متعلق بات کی تھی لیکن اب اس آرڈیننس کے بعد بات نہ کرنے اور جو خط لکھا تھا اس سے بھی واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ سندھ اسمبلی میں بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: 2 بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کیلئے کنسورشیم تشکیل

صدارتی آرڈیننس کو ’پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سندھ کے جزائر کا غیر قانونی الحاق' قرار دیتے ہوئے انہوں نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ’میں پوچھتا ہوں کہ یہ اقدام مقبوضہ کشمیر میں مودی کے اقدام سے کس طرح مختلف ہے'۔

سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘۔

رضا ربانی نے اس آرڈیننس کے نفاذ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے‘۔

سابق چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ یہ آرڈیننس 18ویں ترمیم کو ختم کرنے اور صوبوں کو ان کی جائز اراضی سے محروم رکھنے کی ایک اور کوشش ہے۔

صدارتی آرڈیننس

واضح رہے کہ صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا تھا۔

بعد ازاں صرف دو ہفتوں بعد ہی صدر عارف علوی نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔

وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا۔

پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کے جزیرے

وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے۔

پاکستان آئرلینڈ ڈیولیپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

آرڈیننس کے مطابق اتھارٹی قیام کے بعد کے 10 سال تک انکم ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہوگی، جیسا کہ دفعہ 30 میں لکھا ہے کہ 'کسی بھی دوسرے قانون میں درج ہونے کے باوجود، نوٹیفکیشن کے جاری ہونے کے اگلے 10 برسوں تک اتھارٹی اس کی آمدنی، منافع پر ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنی ہوگی'۔

پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے افعال پر سرسری نظر ڈالیں تو آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔

آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے۔

اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے۔

مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے۔

پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Oct 06, 2020 11:20pm
ملی بھگت لگ رہی ہے سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کی۔