سندھ حکومت نے جزائر خود وفاق کے حوالے کیے تھے، علی زیدی

اپ ڈیٹ 07 اکتوبر 2020
علی زیدی نے کہا کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے، سب دیکھ سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کتنی منافق ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
علی زیدی نے کہا کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے، سب دیکھ سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کتنی منافق ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی: وفاقی اور سندھ حکومتوں کے درمیان اس وقت لفظوں کی نئی جنگ چھڑ گئی جب حکومت سندھ نے اسلام آباد کی جانب سے ایک آرڈیننس کے ذریعے بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کرنے کے اقدام کو ’غیر آئینی‘ قرار دیا جبکہ مرکز میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دعویٰ کیا کہ جزائر انہیں خود پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سندھ حکومت نے دیے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہ لیتے ہوئے صدر مملکت عارف علوی نے ان دو جزائر کا کنٹرول وفاق کو دینے میں مدد فراہم کرنے کے لیے پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 کو نافذ کیا تھا۔

جس کا مقصد ان جزائر کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا ہے۔

ادھر پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور وزیر بحری امور علی زیدی نے سوشل میڈیا پر سندھ حکومت کی جانب سے 6 جولائی 2020 کو بھیجے جانے والے ایک مراسلے کی تصویر شیئر کی جس کے ذریعے بنڈل جزیرے کو وفاقی حکومت کے لیے ’دستیاب‘ قرار دیا گیا تھا۔

وزیر بحری امور نے جزائر کس کی ملکیت ہیں کے موضوع سے بچتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی اس ٹوئٹ پر ردِعمل دیا جس میں انہوں نے وفاق کے ’غیر قانونی الحاق‘ پر بات کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے، سب دیکھ سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کتنی منافق ہے، بنڈل جزیرے سے متعلق کوئی غیر آئینی اقدام نہیں اٹھایا گیا، ریکارڈ کے لیے یہ بات عرض ہے کہ یہ جزائر پورٹ قاسم اتھارٹی کے ماتحت آتے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: وفاق کے سندھ کے جزائر کا انتظام سنبھالنے کے اقدام پر تنقید

’پورٹ قاسم کی حدود میں اراضی کے استعمال کی تبدیلی‘ کے عنوان سے جو مراسلہ علی زیدی نے شیئر کیا وہ صوبائی سیکریٹری لینڈ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ نے جاری کیا تھا۔

اس مراسلے میں کہا گیا کہ صوبائی اسمبلی نے وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی درخواست کے جواب میں ’فیصلہ کیا کہ جزائر وفاقی حکومت کے لیے دستیاب کردیا جائے‘ تاہم اس مراسلے پر کسی جزیرے کا نام نہیں لکھا ہوا تھا۔

مراسلے میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ’مذکورہ جزائر پر کیے جانے والے ترقیاتی اور تعمیراتی کاموں سے مقامی ماہی گیروں اور آبادی کے جائز مفادات کو تحفظ اور انہیں فروغ بھی دیں گے‘۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی وزیر کی جانب سے شیئر کیے جانے والے مراسلے میں جزائر کی ملکیت بھی وفاق کو دیے جانے کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں تھا، بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ یہ صدارتی آرڈیننس ان جزائر کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے نافذ کیا گیا۔

بعدازاں علی زیدی کی ٹوئٹ کے جواب میں وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے پوچھا کہ وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت سے اجازت کیوں مانگی تھی جب وہ پہلے ہی سے ان جزائر کی ملکیت رکھتی تھی؟

ناصر حسین شاہ نے اپنی ٹوئٹ میں 3 سوالات کیے، اگر یہ زمین آپ کی تھی تو آپ نے این او سی کیوں مانگا؟ ہمارے دیے جانے والے جواب میں کہاں لکھا ہے کہ ہم نے زمین کی ملیکت آپ کو دے دی؟ آپ کو صرف مقامی آبادی کے مفادات کے لیے تعمیرات کی اجازت دی گئی تھی جو کسی نجی ادارے کو بھی دی جاسکتی تھی۔

دوسری جانب سندھ کابینہ نے اپنے اجلاس میں مذکورہ صدارتی آرڈینسس پر بات چیت کی اور کہا کہ آئین صوبائی حکومت کے علاقائی دائرہ اختیار میں موجود اراضی، جزائر اور سمندر میں موجود زمین کو اس کی ملکیت قرار دیتا ہے لیکن آرڈیننس اس طرح نافذ کیا گیا جیسے یہ جزائر وفاقی حکومت کی جائیداد ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی کے جزیرے

جزائر کو ترقی دینے کے لیے وفاقی حکومت کے حوالے کیے جانے والے آرڈیننس کی تفصیلات میں جائے بغیر سندھ کابینہ نے کہا کہ صوبائی اسمبلی نے ترقیاتی کاموں کے لیے کچھ پیرامیٹرز یا ضوابط رکھے تھے۔

کابینہ نے دہرایا کہ ان ضوابط کے مطابق جزائر صوبائی حکومت کی ملکیت رہیں گے، ترقیاتی منصوبوں کی شرائط و ضوابط صوبائی حکومت سے شیئر کیے جائیں گے اور مقامی آبادی کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔

کابینہ نے نشاندہی کی کہ اس آرڈیننس نے صوبائی حکومت کی شرائط کو نظر انداز کرتے ہوئے سندھ اور بلوچستان کے علاقائی دائرہ اختیار میں موجود جزائر کو وفاقی حکومت کی ملکیت قرار دیا۔

صوبائی کابینہ نے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ وفاق کو خط لکھ کر اس آرڈیننس کو واپس لینے پر اصرار کریں گے جس نے سندھ کی حکومت اور عوام کے حقوق کو مسترد کردیا ہے۔

صدارتی آرڈیننس

واضح رہے کہ صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں صرف دو ہفتوں بعد ہی صدر عارف علوی نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی تھی۔

وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا۔

پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کے جزیرے

وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے۔

پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

آرڈیننس کے مطابق اتھارٹی قیام کے بعد 10 سال تک انکم ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہوگی، جیسا کہ دفعہ 30 میں لکھا ہے کہ 'کسی بھی دوسرے قانون میں درج ہونے کے باوجود، نوٹیفکیشن کے جاری ہونے کے اگلے 10 برسوں تک اتھارٹی اس کی آمدنی، منافع پر ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنی ہوگی'۔

پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے افعال پر سرسری نظر ڈالیں تو آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔

آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے۔

اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے۔

مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے۔

پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں