سینیٹ انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کے اراکین، اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں گے، خواجہ آصف

اپ ڈیٹ 09 اکتوبر 2020
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے پارٹی اجلاس میں یہ بات کہی—فائل فوٹو: رائٹرز
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے پارٹی اجلاس میں یہ بات کہی—فائل فوٹو: رائٹرز

لاہور: اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو مارچ میں سینیٹ انتخابات سے روکنے سے متعلق اپنے خیالات کو سامنے لاتے ہوئے کہا ہے کہ جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے احتجاج کی مہم اپنے عروج پر پہنچے گی تو مسلم لیگ (ن) کے 84 اراکین قومی اسمبلی (ایم این اے) مستعفی ہوجائیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما خواجہ آصف نے یہ بات ماڈل ٹاؤن میں ہونے والے پارٹی قانون سازوں کے اجلاس میں کہی، جس سے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے بھی لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کیا۔

خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اپنے عروج پر پہنچے گی تو ہمارے 84 اراکین، قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں گے، پھر ہم دیکھیں گے کہ کیسے سینیٹ انتخابات منعقد ہوتے ہیں، مزید یہ کہ سینیٹ میں موجود پارٹی کے پارلیمانی رہنما کی آواز پر مسلم لیگ (ن) کا ایک، ایک رکن، قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: دیکھنا ہے نواز شریف کی تقاریر دکھائی جاسکتی ہیں یا نہیں، شبلی فراز

انہوں نے مزید کہا کہ ’پارٹی کے قانون ساز مشکل وقت میں پارٹی قیادت کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ خواجہ آصف نے اور نہ ہی کسی دوسرے رہنما نے یہ بات کی کہ آیا دیگر جماعتوں خاص طور پر پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کے اراکین قومی اسمبلی، مسلم لیگ (ن) کے قانون سازوں کے ساتھ مستعفی ہوں گے۔

واضح رہے کہ یہ دونوں جماعتیں پی ڈی ایم کا حصہ ہیں اور جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن اس تحریک کے صدر ہیں۔

ادھر مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سے جب پوچھا گیا کہ آیا سینیٹ انتخابات سے قبل مستعفی ہونے کی حکمت عملی پی ڈی ایم کی مشترکہ حکمتِ عملی ہوگی یا صرف لیگی رہنما مستعفی ہوں گے؟ تو انہوں نے ڈان کو بتایا کہ خواجہ آصف نے صرف اپنی جماعت کے بارے میں بات کی، ’وقت آنے دیں، اس حوالے سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جھنڈے تلے اپوزیشن متفقہ فیصلہ کرے گی‘۔

یہ بھی پڑھیں: تمام اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہے، مولانا فضل الرحمٰن

مزید یہ کہ اس حوالے سے جماعت کے اندرونی لوگوں کا کہنا تھا کہ پارٹی رہنماؤں کا استعفوں کے حوالے سے جماعت کے اندر باہمی اتفاق پیدا کرنا مشکل ہے، ’ابھی بہت وقت پڑا ہے اس مرحلے کو آنے دیں پھر دیکھیں گے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی آج کی اس تجویز پر عمل کرتی ہے‘۔

دوسری جانب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے مسلم لیگ (ن) کے اس منصوبے پر ردعمل دیتے ہوئے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ’مریم صفدر شہباز آپ نے اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کی دھمکی دی ہے، آپ کیوں مارچ تک کا انتظار کررہی ہیں، مستعفی ہوں، ہم ان خالی نشستوں پر انتخابات کرواتے ہیں، عمران خان آپ کی دھمکیوں سے نہیں ہاریں گے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ اگر اپوزیشن اسمبلیوں سے مستعفی ہوتی ہے تو وہ انتخابات کروائیں گے۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) زیادہ تر سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران جماعت کے صوبائی سیکریٹریٹ میں جمع ہوئے تھے، جس میں انہوں نے ووٹ کو عزت دینے اور تحریک انصاف کی ’سلیکٹڈ‘ حکومت سے نجات دلانے میں جماعت کی حمایت کا اعادہ کیا۔

علاوہ ازیں اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے شرکا سے آئین کی بالادستی اور عوام کی حکومت قائم کرنے کی اس جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا عہد بھی لیا۔

نواز شریف نے پارلیمان کے بے اختیار ہونے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جنہوں نے قوم کا صبر آزمانے کے لیے عمران خان کو مسلط کیا ہے میں ان سے کہتا ہوں کہ ان سے جلد سے جلد جان چھڑا لیں کیونکہ عمران خان عوام کی زندگیاں مشکل بنانے کا ذمہ دار ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو فوج نے پال کر سیاست دان بنایا، وزیراعظم

انہوں نے مزید کہا کہ ’لوگ بھوک اور روزمرہ کی استعمال کی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے مر رہے ہیں ، لوگ ایک دن میں 2 وقت کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے، کون ذمہ دار ہے، عمران خان اور وہ لوگ ذمہ دار ہیں جو 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کرکے انہیں لائے‘۔

سابق وزیراعظم نے عمران خان کے اثاثوں پر بھی سوال اٹھایا کہ ’عمران خان کی آمدن کے کونسے ذرائع ہیں؟ کس ذریعے سے اس نے بنی گالہ بنایا؟ ان کی بہن علیمہ خان اور عاصم سلیم باجوہ کب منی ٹریل دیں گے؟، عمران خان کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے کلین چٹ دے دی تھی لیکن پاکستانی عوام ان سے ان اثاثوں کے منی ٹریل مانگتے ہیں‘۔

دریں اثنا نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں ہونے والی پی ڈی ایم کی پہلی ریلی کے بارے میں بھی بات کی اور اور قانون سازوں کو کہا کہ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے احتجاج کو کامیاب بنائیں۔


یہ خبر 9 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں