قیدیوں کی رہائی کی یقین دہانی پر ہنزہ میں جاری دھرنا ختم

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2020
حکومت اور مظاہرین کے مابین ہوئے معاہدے کے مطابق 2 قیدیوں کو چند روز میں میڈیکل گراؤنڈ پر رہا کردیا جائے گا —تصویر: ٹوئٹر
حکومت اور مظاہرین کے مابین ہوئے معاہدے کے مطابق 2 قیدیوں کو چند روز میں میڈیکل گراؤنڈ پر رہا کردیا جائے گا —تصویر: ٹوئٹر

گلگت: ہنزہ کے قریب علی آباد میں 6 روز سے جاری دھرنا گلگت بلتستان کی قائم مقام حکومت کی جانب سے مظاہرین کو ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں 14 سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کی یقین دہانی پر ختم کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قید رہنماؤں کی رہائی کے لیے تشکیل دی گئی اسیران ہنزہ رہائی کمیٹی کی کال پر منعقدہ دھرنے کے ختم ہونے پر ہزاروں مظاہرین اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے۔

خیال رہے زیر حراست کارکنان کے اہلِ خانہ سمیت مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، عوامی ورکرز پارٹی اور مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مظاہرین پیر کے روز علی آباد کے مقام پر قراقرم ہائی وے بلاک کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان میں انتخابات 15 نومبر کو ہوں گے

اس کے علاوہ گلگت بلتستان اسمبلی کے آئندہ انتخابات میں ہنزہ کے حلقے سے تعلق رکھنے والے اُمیدواروں نے بھی احتجاج میں شرکت کی۔

ایک قید ایکٹوسٹ کو 2011 میں عطا آباد جھیل سے ہونے والی تباہی پر احتجاج کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا جنہیں بعد میں عدالتوں نے جیل بھیج دیا تھا۔

یاد رہے کہ عطا آباد جھیل واقعے میں 10 افراد ہلاک جبکہ 30 گھر تباہ ہوگئے تھے اور گلگت بلتستان حکومت نے متاثرہ افراد کی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔

گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے متاثرہ افراد سے کیا گیا وعدہ نہ پورا ہونے پر انہوں نے سیاسی کارکنان کے ساتھ یکم اگست 2011 کو ضلع ہنزہ کے صدر مقام علی آباد میں ایک مظاہرہ منعقد کیا تھا۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان میں پھول تشویش کا باعث کیوں؟

اتفاق سے اس وقت کے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مہدی شاہ کو اسی روز ہنزہ کا دورہ کرنا تھا جس کی وجہ سے پولیس نے قراقرم ہائی وے کو خالی کروانے کے لیے مظاہرہ ختم کروانے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں پولیس اور مظاہرین کے دوران جھڑپ ہوگئی۔

اس دوران پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کی جانے والی فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص اور اس کے والد ہلاک ہوگئے تھے۔

واقعے کے بعد پولیس نے مظاہرے کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں 400 سیاسی کارکنان کو گرفتار کرلیا تھا۔

جن میں بابا جان سمیت 14 کارکنان کو 2011 میں فسادات کرنے کے الزام میں گلگت بلتستان کی انسداد دہشت گردی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا گلگت بلتستان کے انتخابات 'اتحاد' کے بغیر لڑنے کا فیصلہ

بعدازاں گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدالت نے ان کی سزا کے خلاف نظرِ ثانی اپیل مسترد کردی تھی۔

اس کے علاوہ گلگت بلتستان کی سپریل اپیلیٹ کورٹ میں ٹرائل کورٹ کی سنائی گئی سزا کے خلاف دائر درخواست کی سماعت 2 سال سے نہ ہوسکی کیوں کہ وہاں ایک جج کا عہدہ خالی ہے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ ماضی میں متعدد مظاہرے کیے گئے جن میں تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں، سماجی و انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان کے مؤقف کی حمایت کی لیکن حکومت نے اس معاملے پر کوئی توجہ نہیں دی۔

حکومت اور مظاہرین کے مابین ہوئے معاہدے کے مطابق 2 قیدیوں کو چند روز میں میڈیکل گراؤنڈ پر رہا کردیا جائے گا جبکہ دیگر کو قانونی شرائط پوری کرنے کے بعد ایک سے ڈیڑھ ماہ میں رہا کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں