دنیا بھر میں نوول کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد 3 کروڑ 80 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے اور اس کے پھیلاﺅ کی رفتار میں کمی نظر نہیں آرہی۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اب تک اس وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار کروڑوں افراد صحت یاب بھی ہوچکے ہیں اور عالمی ادارہ صحت کا بھی کہنا ہے کہ 97 فیصد مریض صحت یاب ہوجاتے ہیں۔

یعنی صحت یابی کی شرح حوصلہ بخش ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو لوگ ایک بار کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں، وہ دوبارہ اس خطرے سے دوچار نہیں ہوسکتے۔

درحقیقت حالیہ ہفتوں میں کورونا وائرس سے دوسری بار بیمار ہونے کے کچھ کیسز سامنے آئے ہیں جس سے لگتا ہے کہ اس وبا کا کوئی اختتام نہیں۔

12 اکتوبر کو ایک تحقیق شائع ہوئی جس میں امریکا سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ نوجوان کے کیس کا ذکر کیا گیا تھا۔

اس نوجوان کا نام تو ظاہر نہیں کیا گیا مگر یہ بتایا گیا کہ وہ دوسری بار بیماری کی شدت پہلے سے زیادہ تھی، حالانکہ مدافعتی نظام کو اس کی روک تھام کرنی چاہیے تھی۔

مگر ابھی دوبارہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے کیسز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، یعنی 3 کروڑ 80 لاکھ سے زائد کیسز میں سے اب تک 5 افراد میں دوسری بار اس بیماری کی تصدیق ہوئی ہے۔

امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی وائرلوجسٹ اینجلا راسموسین کے مطابق 'اگر دنیا بھر کے کیسز کی تعداد سے موازنہ کیا جائے تو یہ نہ ہونے کے برابر تعداد ہے'۔

دوسری بار بیمار ہونے والے افراد کی اکثریت میں کووڈ 9 کی علامات معتدل یا بالکل بھی نہیں تھیں، مگر کم از کم 3 افراد میں یہ شدت پہلی بیماری کے مقابلے میں یادہ سنگین تھی۔

نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے 89 سالہ خاتون تو دوسری بار کووڈ 19 کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئی اور یہ دنیا میں ری انفیکشن سے ہونے والی پہلی ہلاکت بھی قرار دی جارہی ہے۔

جریدے دی لانسیٹ انفیکشی ڈیزیز میں امریکی نوجوان کے کیس پر شائع تحقیق میں شامل یالے یونیورسٹی کے ماہر اکیکو آئیواسکی کا کہنا تھا کہ کیسز کی تعداد چاہے نہ ہونے کے برابر ہو مگر اس سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک مریض دوسری بار بھی کووڈ 19 کا شکار ہوسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا 'یہ خیاال رکھنا چاہیے کہ دوبارہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے کچھ افراد میں اس بار بیماری کی شدت سنگین تھی، یعنی صحتیاب ہونے کے بعد بھی فیس ماسک کو پہننا اور سماجی دوری پر عمل کرنا ضروری ہے'۔

اس حوالے سے ماہرین کی رائے پر ایک رپورٹ نیویارک ٹائمز نے شائع کی ہے۔

کورونا وائرس سے دوبارہ متاثر ہونا غیرمعمولی

اچھی خبر تو یہ ہے کہ کووڈ 19 سے دوسری بار متاثر ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر محسوس ہوتا ہے۔

اگست کے آخر میں ہانگ کانگ میں دوبارہ بیماری کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی جس کے بعد ایسے مزید 3 کیسز سامنے آئے جبکہ مزید 20 مشتبہ کیسز کی تصدیق کے لیے ابھی کام کیا جارہا ہے۔

مگر یہ جاننا ابھی ناممکن ہے کہ ان کیسز کی شرح کتنی ہے، کیونکہ دوبارہ بیماری کی تصدیق کے لیے ماہرین کو کورونا وائرسز کے جینز کے درمیان تضاداتا کو دیکھنا ہوتا ہے۔

امریکا جیسے ملک میں کورونا وائرس کے ٹیسٹوں کی کمی ہے اور وہاں بیشتر افراد کے ٹیسٹ اس وقت تک نہیں ہوتے جب تک وہ زیادہ بیمار ہوکر ہسپتال میں داخل نہیں ہوجاتے۔

مگر وہاں پر بھی عموماً نمونوں کو جینیاتی تجزیے کے لیے محفوظ نہیں کیا جاتا اور اس لیے دوبارہ ری انفیکشن کی تصدیق لگ بھگ ناممکن ہوجاتی ہے۔

آسان الفاظ میں دوبارہ بیمار ہونے والے افراد کی بڑی اکثریت میں ممکنہ طور پر اس کی تشخیص ممکن نہیں ہوسکے گی، جبکہ علامات نظر نہ آنا ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔

مثال کے طور پر ہانگ کانگ میں جس کیس میں دوسری بار کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی، اسے کسی قسم کی علامات کا سامنا نہیں ہوا تھا اور اس کی تشخیص ایئرپورٹ پر معمول کی اسکریننگ کے دوران ہوئی۔

واشنگٹن یونیورسٹی کی ماہر ماریون پیپر کے مطابق 'ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہوگی جو وائرس سے متاثر ہوئے ہوں گے مگر ان مین علامات ظاہر نہیں ہوئی ہوں گی'۔

ماہرین کے مطابق دوسری بار بیمار ہونے والے افراد میں اس کی سنگین شدت سے ہی کیس کی تشخیص ہوسکے گی کیونکہ انہیں ہسپتال لوٹنا پڑے گا، مگر یہ تعداد بھی نہ ہونے کے برابر ہوسکتی ہے۔

اکیکو آئیواسکی کا کہنا تھا 'اگر یہ معمول کا حصہ بن گیا تو ہمیں ہزاروں کیسز کو دیکھنا پڑسکتا ہے'۔

بیشتر افراد میں مدافعتی نظام توقعات کے مطابق کام کرے گا

دوبارہ بیماری کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں جیسسے پہلی بار بیماری کی شدت اتنی کم ہو کہ مدافعتی ردعمل پیدا نہ ہوسکا ہو یا مدافعتی نظام کسی اور بیماری کی وجہ سے پہلے ہی کمزور ہوچکا ہو۔

عام طور پر ایک مریض کو بڑی مقدار میں وائرس کا سامنا کرنے پر ہی کسی بیماری کے خلاف مدافعتی ردعمل کی صلاحیت حاصل ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق ایسے امکانات کی توقع ہے اور مختلف بیماریوں جیسے خسرے اور ملیریا کے مریضوں میں ان کا مشاہدہ بھی ہوا ہے۔

ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ڈاکٹر مچل مینا نے بتایا 'لاکھوں کروڑوں افراد میں جب کوئی بیماری پھیلتی ہے تو ان میں دوسری بار کچھ سنگین شدت والے کیسز کا امکان تو ہوتا ہی ہے'۔

یورپ میں دوسری بار کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے کم از کم 2 مریضوں کا مدافعتی نظام کمزور تھا، مثال کے طور پر نیدرلینڈز کی 89 سالہ خاتون کینسر کے علاج کے لیے کیموتھراپی کے عمل سے گزر رہی تھیں، مگر کووڈ 19 سے ہلاک ہوگئیں۔

دوسرا مریض میں جینیاتی عناصر یا مدافعتی ردعمل کی کمی کے نتیجے میں جسم کی کووڈ 19 سے لڑنے کی صلاحیت متاثر ہوئی۔

ایشکن اسکول آف میڈیسین کی ماہر فلورین کریمر نے اس حوالے سے بتایا 'ایسے کئی افراد ہوں گے جن کے جسم میں کسی مخصوص جراثیم کے خلاف اچھا مدافعتی ردعمل بن نہیں پاتا، اس کی وجہ کیا ہے؟ ہمیں اس پر یقین نہیں، مگر عموماً ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے'۔

ماہرین کے مطابق متاثرہ افراد کی اکثریت میں مدافعتی نظام کے افعال اسی طرح کووڈ 1 کے خلاف کام کرتے ہیں، جیسا دیگر جراثیموں کے خلاف کرتے ہیں۔

واشنگٹن یونیورسٹی کی ماہر ماریون پیپرکے مطابق 'ایسے متعدد امراض ہیں جو بار بار ہمارے جسم کو کسی مخصوص وائرس کا شکار بناتے ہیں اور ہمیں ممکنہ طور پر علم نہیں ہوتا کیونکہ علامات نہیں ہوتیں، یہ مدافعتی کو بڑھانے کا ایک ضروری حصہ ہے'۔

ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کی ڈاکٹر مائیکل مینا کے مطابق جب جسم کسی غیرمانوس وائرس سے متاثر ہوتا ہے، تو یہ معمول کا حصہ ہووتا ہے کہ اس کے خلاف کچھ مدافعت پیدا ہو اور پھر یہ ردعمل ہر بیماری کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ رجحان بچوں میں عام نظر آتا ہے مگر بالغ افراد میں اس کا مشاہدہ بہت کم ہوتا ہے کیونکہ ان کا سامنا نئے وائرسز سے بہت کم ہوتا ہے۔

ان کے بقول 'میرے خیال میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کسی بیماری سے دوبارہ متاثر ہونا ہمارے مدافعتی نظام کے ارتقا کا حصہ ہے، ہم اکثر اوقات راہ سے بھٹک جاتے ہیں کیونکہ بیشتر افراد مدافعتی نظام پر کام نہیں کرتے'۔

علامات کا دوبارہ ابھرنا ہر بار دوبارہ بیماری نہیں ہوتی

دوبارہ بیماری کے مصدقہ کیسز سے ہٹ کر اب درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں متاثرہ افراد کووڈ 19 سے بیمار ہوئے اور صحتیاب ہوکر کئی ہفتوں یا مہینوں کے بعد دوبارہ بیمار ہوگئے۔

عام طور پر ان کیسز میں اہم ڈیٹا موجود نہیں ہوتا، جیسے لیبارٹری کی تشخیص یا وائرس کا نمونہ جس کا سیکونس بنانا ضروری ہوتا ہے۔

ایشکن اسکول آف میڈیسین کی ماہر فلورین کریمر کے مطابق 'یہ سوال ہمیشہ ہوتا ہے کہ یہ واقعی ری انفیکشن ہے؟ اکثر یہ بہت چیلنجنگ ہوتا ہے کہ اس طرح کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاسکے'۔

اس طرح کے کیسز کی اکثریت میں دوبارہ بیماری کا امکان بہت کم ہوتا ہے، بلکہ زیادہ امکان یہ ہوتا ہے کہ ان افراد میں پہلی بیماری کی علامات دوبارہ ابھر رہی ہیں، یہ وائرس ممکنہ طور پر ایک ورمی ردعمل شروع کرتا ہے جو کئی ہفتوں بعد تیز ہوسکتا ہے اور تھکاوٹ یا دل کے مسائل جیسی علامات کا باعث بن سکتا ہے۔

کچھ کیسز میں تو مریضوں میں کم شدت والی بیماری بھی ابھر سکتی ہے۔

فلورین کریمر کا کہنا تھا کہ فلو جیسے وائرسز شدید بیماری کا باعث بنتے ہیں، جن کا تسلسل اس وقت برقرار رہتا ہے جب مدافعتی نظام کمزور ہوچکا ہو۔

دوسری بار وائرس سے متاثر ہونے والے اسے دیگر تک منتقل کرسکتے ہیں

ری انفیکشن کا شکار ہونے والے ایسے افراد جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں، وہ وائرس کو دیگر تک منتقل کرسکتے ہیں۔

مثال کے طور پر ہانگ کانگ میں جس مریض میں دوبارہ کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی، کو علامات نہ ہونے کے باوجود ایک ہسپتال میں آئسولیٹ کردیا گیا تھا، مگر اس کا وائرل لوڈ اتنا زیادہ ضرور تھا کہ وہ وائرس کو دیگر تک منتقل کرسکتا تھا۔

ماریون پیپر نے بتایا کہ یقیناً وہ نوجوان بیمار نہیں تھا اور اس کا جسم ٹھیک ٹھاک تھا مگر وہ برادری کے لیے ٹھیک نہیں تھا۔

مگر وائرس کی منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے محققین کو زندہ وائرس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

جنوبی کوریا کے محققین نے ری انفیکشن کے سیکڑوں کیسز کی تحقیقات کی اور ان افراد میں دوسری بار بیماری کا امکان مسترد کردیا کیونکہ وہ نمونوں میں متعدد وائرس کے حصول میں ناکام رہے۔

ڈاکٹر راسموسین کا کہنا تھا کہ اس سے ملتے جلتے عمل کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر مریض سے وائرس کی منتقلی کے امکان کو مسترد کرنے میں مدد مل سکے، یہی واحد راستہ ہے جس سے ہم اس کی گہرائی تک جاسکتے ہیں۔

ویکسینز ری انفیکشن کی روک تھام کے لیے ضروری

دوبارہ بیماری کی رپورٹس سے یہ خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ کورونا وائرس کے خلاف ویکسینز موثر ثابت ہو بھی سکیں گی یا نہیں اور اس سے برادریوں میں مدافعت کا حصول ممکن ہوگا یا نہیں۔

یہ خدشہ بھی ہے کہ ویکسینز سے حاصل ہونے والی مدافعت اتنی نہیں ہوگی کہ وہ وائرس سے دوبارہ متاثر ہونے سے روک سکے۔

مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسینز سے ایسے مدافعت پیدا ہونے کا قوی امکان ہے جو وائرس سے متاثر ہونے پر جسم کے اندر بنتی ہے۔

مثال کے طور پر کورونا وائرس جسم کے ابتدائی مدافعتی الارم کو دھوکا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور بیماری کا بیج بونے کے لیے وقت حاصل کرلیتا ہے۔

کچھ افراد میں اس عمل کے دوران مدافعتی نظام کا شدید ردعمل پیدا ہوتا ہے جو بیماری سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

ویکسینزز سے یہ مدافعتی ردعمل وائرس کی مداخلت کے بغیر بنتا ہے اور نقصان دہ ردعمل سے بھی تحفظ ملتا ہے۔

ویکسینز سے مدافعتی یادداشت کو بڑھانے میں بھی مدد ملتی ہے جو دیرپا اور زیادہ حفاظتی ردعمل پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔

ویکسین ٹرائل میں ابھی ایسے افراد کو شامل کیا جارہا ہے جو اس وائرس سے متاثر نہیں اور ابھی واضح نہیں کہ یہ ویکسینز کس حد تک وائرس کو دیگر تک منتقل کرنے میں کامیاب ہوسکیں گی۔

مگر ڈاکٹر راسموسین کا کہنا ہے کہ ویکسین سے حاصل ہونے والی مدافعت قدرتی مدافعتی کے مقابلے میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں