آرمینیا کے وزیر خارجہ نیگورنو-کاراباخ کی 'غیر مقبول' جنگ بندی پر مستعفی

اپ ڈیٹ 17 نومبر 2020
زهراب ناتساكانيان مئی 2018 سے وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز تھے—فائل فوٹو: اے پی
زهراب ناتساكانيان مئی 2018 سے وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز تھے—فائل فوٹو: اے پی

آرمینیا کے وزیر خارجہ نے سابقہ سوویت جمہوریہ میں نیگورنو کاراباخ میں جنگ کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے پیشِ نظر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، جنگ بندی میں آذربائیجان کے لیے علاقائی فوائد ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق وزارت خارجہ کی ترجمان نے اپنے فیس بک پیج پر زهراب ناتساكانيان کے عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا جو مئی 2018 سے اس عہدے پر براجمان تھے۔

واضح رہے کہ آرمینیا کے وزیر اعظم نيكول باشينيان کو جنگ بندی کے معاہدے پر شدید تنقید کا سامنا ہے جس کے تحت 6 ہفتوں تک جاری رہنے والی لڑائی اختتام پذیر ہوئی تھی جبکہ گزشتہ ہفتے ہزاروں مظاہرین نے احتجاج کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آرمینیا، آذربائیجان کے درمیان نئی جنگ بندی، خلاف ورزیوں کی بھی اطلاعات

گزشتہ روز دارالحکومت یریوان کے سینٹرل فریڈم اسکوائر پر سیکڑوں مظاہرین نے ریلیاں نکالیں۔

یاد رہے جنگ بندی معاہدے پر آرمینیا، آذربائیجان اور روس کے رہنماؤں نے 10 نومبر کو دستخط کیے تھے، جس کے بعد نیگورنو کاراباخ اور اس کے اطراف میں فوجی کارروائی کو روک دیا گیا تھا۔

اس محصور علاقے کو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کرلیا گیا ہے لیکن یہاں آباد لوگ آرمینیائی نسل کے ہیں، اس خطے میں 2 ہزار روسی فوجیوں کو امن کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔

گزشتہ ایک سے ڈیڑھ ماہ میں زهراب ناتساكانيان نے آذربائیجان کے اپنے ہم منصب جيحون بيراموف سے جنگ بندی کے انتظامات کے لیے 3 مرتبہ ملاقات کی تھی لیکن ہر کوشش فوراً ہی ناکام ہوگئی۔

مزید پڑھیں: آرمینیا، آذربائیجان اور روس نے نیگورنو۔کاراباخ میں لڑائی کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط کردیے

نیگورنو کاراباخ پر 25 سال سے جاری لڑائی ایک بار پھر 27 ستمبر کو اس وقت شروع ہوئی جب آرمینیائی قوم نے تمام پہاڑی علاقوں پر فوجی کنٹرول حاصل کرکے آذربائیجان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی تھی۔

تاہم جب بندوقیں خاموش ہوئیں تو وہ بہت سا محصور علاقہ کھو چکے تھے، جس میں ان کا دوسرا شہر شوشی بھی شامل تھا جسے آذری شوشا کہتے ہیں اور اس سے ملحقہ علاقہ بھی شامل ہے۔

وزیر اعظم نکول پشینان کا نیوز کانفرنس میں کہنا تھا کہ اگر آرمینیا شوشی کے ساتھ ساتھ نیگورنو کاراباخ کے ارد گرد کے 7 علاقوں میں رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈال دیتا تو جنگ سے بچا جاسکتا تھا 'لیکن ہم نے جنگ کا چیلنج لیا'۔

جس کے فوراً بعد ہی وزارت خارجہ کی ترجمان انا ناغدلیان نے فیس بک پر مختصراً لکھا کہ دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کی کسی بھی سطح پر ایجنڈے میں شوشی سے دستبرداری شامل نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ترک پارلیمنٹ میں آذربائیجان میں فوج کی تعیناتی کیلئے بل پیش

وزیراعظم نکول پشینان کا مزید کہنا تھا کہ لاچین ریجن سے گزرنے والی سڑک جو نیگورنو کاراباخ اور آرمینیا کے ریاستی علاقے کو منسلک کرتی ہے پیر کے روز کھول دی جائے گی اور محصور علاقے کے متعدد دربدر ہونے والے رہائشی اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔

دوسری جانب کریملن نے بتایا کہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے گزشتہ روز ٹیلی فون پر اپنے فرانسیسی ہم منصب ایمانوئیل میکرون سے نیگورنو کاراباخ کی صورتحال پر بات کی تھی۔

دونوں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جنوبی قفقاز خطے میں صورتحال عمومی طور پر مستحکم ہے اور اب وقت ہے کہ انسانی مسائل بشمول مہاجرین کی واپسی اور عیسائی کلیساؤں اور خانقاہوں کو محفوظ کرنے پر توجہ دی جائے۔


یہ خبر17 نومبر 2020 ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں