تحریک لبیک کا حکومت کی جانب سے ان کے تمام مطالبات تسلیم کیے جانے کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 17 نومبر 2020
مظاہرین نے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا—فوٹو: اے ایف پی
مظاہرین نے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا—فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد/ راولپنڈی: تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے اعلان کیا ہے کہ حکومت نے اس کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے۔

تاہم مذکورہ خبر کی اشاعت تک دھرنا ختم کرنے کا باضابطہ اعلان سامنے نہیں آیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ترجمان ٹی ایل پی کی جانب سے تحریری معاہدے کی ایک کاپی جاری کی گئی جس پر وزیر مذہبی امور پیرنور الحق، وزیر داخلہ اعجاز شاہ اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے دستخط تھے۔

معاہدے میں کہا گیا کہ حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق 3 ماہ میں پارلیمنٹ سے فیصلہ لے گی، فرانس میں اپنا سفیر مقرر نہیں کرے گی اور ٹی ایل پی کے تمام گرفتار کارکنان کو رہا کرے گی۔

مزید یہ کہ حکومت دھرنا ہونے کے بعد ٹی ایل پی رہنماؤں یا کارکنان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کرے گی۔

مزید پڑھیں: حکومت سے مذاکرات کامیاب: ٹی ایل پی فیض آباد دھرنا ختم کرنے پر آمادہ

علاوہ ازیں وزارت داخلہ کی جانب سے پنجاب کے مختلف حصوں سے 2 روز میں گرفتار کیے گئے تمام افراد کو چھوڑنے سے متعلق ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا، بعد ازاں حکومت پنجاب نے بھی تمام ڈپٹی کمشنرز کو پنجاب مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس 1960 کے تحت گرفتار/ حراست میں لیے گئے ٹی ایل پی کے تمام کارکنان کو رہا کرنے کی ہدایت کردی۔

قبل ازیں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مذکورہ معاملے کا نوٹس لینے اور پرامن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حکم کے بعد انتظامیہ نے ٹی ایل پی مظاہرین کے خلاف متوقع آپریشن کے آپشن کو ایک طرف کردیا تھا۔

وزیر مذہبی امور نورالحق قادری کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ ٹی ایل پی قیادت کے ساتھ مذاکرات کریں۔

اس حوالے سے جب نورالحق قادری سے رابطہ کیا گیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس وقت لاہور میں تھے جب وزیراعظم نے انہیں بلایا اور دونوں نے ایجنڈے پر بات کی۔

انہوں نے اُمید ظاہر کی تھی کہ ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے جس کے بعد مظاہرین جلد ہی منتشر ہوجائیں گے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کن شرائط پر مظاہرین فیض آباد کا مقام چھوڑیں گے تو وزیر کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی اپنے اسٹیج سے معاہدے کے نکات کا اعلان کرے گی۔

واضح رہے کہ ٹی ایل پی کی جانب سے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

اس حوالے سے دارالحکومت انتظامیہ اور پولیس کے عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ اس سے قبل حکومت نے انہیں واضح طور پر کہا تھا کہ مظاہرین کو ہٹائیں اور فیض آباد اور اس سے متصل علاقے کلیئر کریں۔

انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں پولیس اور پیراملٹری فورسز نے سہ پہر میں آپریشن شروع کرنے کے لیے فارمیشنز بنانے کا آغاز کردیا تھا لیکن اسے آخری پہر اس وقت منسوخ کردیا گیا جب پولیس اور انتظامیہ کے سینئر افسران کی جانب سے ایک پیغام آیا کہ اس پلان کے ساتھ آگے نہیں بڑھنا ہے۔

عہدیداروں کا کہنا تھا کہ بعدازاں ٹی ایل پی رہنماؤں سے رابطہ کیا گیا جس نے مذاکرات کے لیے ایک وفد کو بھیجا۔

اس سے قبل ہفتے کی رات کو ٹی ایل پی رہنماؤں اور کارکنان کی بڑی تعداد فیض آباد کے مقام پر پہنچی تھی جہاں قانون نافذ کرنے والوں نے انہیں منتشر کرنے کےلیے آنسو گیس کا استعمال کیا تھا لیکن مظاہرین رکاوٹیں ہٹانے اور پولیس اور پیراملٹری فورسز کو پیچھے دکھیلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

عہدیداروں کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی فورسز، انسداد دہشت گردی اسکواڈ اور انسداد فساد یونٹ سمیت دارالحکومت پولیس کے ساز و سامان سے لیس دستوں نے پیرا ملٹری فورسز کے ساتھ رات سوا 4 بجے شروع ہونے والے آپریشن میں حصہ لیا اور یہ پیر کی صبح تک 8 بجے تک جاری رہا۔

اس موقع پر مظاہرین اور سیکیورٹی حکام ایک دوسرے کے آمنے سامنے نظر آئے، بعد ازاں صبح 9 بجے آپریشن معطل کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ مظاہرین فیض آباد انٹرچینج کے تمام اطرف پھیل گئے تھے جس کے بعد راول ڈیم چوک سے مری روڈ، زیرو پوائنٹ سے خانہ اور آئی۔ جے پرنسپل روڈ تک اسلام آباد ایکسپریس وے، نائتھ ایونیو سے پرنسپل روڈ سیل کردیا گیا تھا جبکہ خیابان سہروردی، ڈھوکری چوک سے سری نگر ہائی وے اور پولی کلینک چوک پر فضل الحق سمیت ریڈ وز کو جزوی سیل کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی: ٹی ایل پی کارکنان اور پولیس میں تصادم، صورتحال کشیدہ

اسی کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ نے جڑواں شہروں گیریشن سٹی میں 24 اور اسلام آباد میں 16 داخلی راستوں کو بھی کنٹینر اور بڑے ٹرکس لگا کر سیل کردیا تھا۔

علاوہ ازیں ڈی ایس پی طارق محبوب، ایس ایچ او عبدالعزیز، 2 سب انسپکٹر، 3 کانسٹیبلز، 10 ایلٹ فورس اور 3 ڈولفن فورس کے اہلکاروں سمیت 26 پولیس عہدیدار تصادم کے دوران زخمی ہوئے۔

پیر کو میٹرو بس سروس اور پبلک ٹرانسپورٹ معطل رہی جبکہ رہائشیوں کو سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور کئی روڈ جی ٹی روڈ پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ پھنسے رہے، یہی نہیں بلکہ ہسپتال جانے والی ایمبولنسز بھی سڑکوں پر پھنسی رہیں، مزید یہ کہ مری روڈ اور اطراف کے علاقوں میں مارکیٹیں بھی بند رہیں۔

اس کے علاوہ راولپنڈی، اسلام آباد، اٹک، جہلم اور چکوال میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز معطل رہیں۔

علاوہ ازیں 2 علیحدہ ایف آئی آر جس میں سے ایک وارث خان اور دوسری ریس کورس تھانے میں 850 سے زائد افراد کے خلاف درج کی گئیں۔


اضافی رپورٹنگ: قلب علی

تبصرے (0) بند ہیں