'ڈینیئل پرل قتل کا تعلق عالمی دہشت گردی سے ہے'

اپ ڈیٹ 03 دسمبر 2020
امریکی صحافی ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی سے اغوا کرنے کے بعد قتل کردیا گیا تھا— فوٹو: ڈان
امریکی صحافی ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی سے اغوا کرنے کے بعد قتل کردیا گیا تھا— فوٹو: ڈان

اسلام آباد: حکومت سندھ کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت عظمیٰ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ امریکی صحافی ڈینیئل پرل کا اغوا اور اس کے بعد ان کا قتل بین الاقوامی دہشت گردی سے متعلق ہونے والے واقعات کا ایک حصہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کی گواہی کا حوالہ دیا جس نے 2 مارچ 2002 کو ٹرائل کورٹ کے روبرو اپنے بیان کی ریکارڈنگ کے دوران اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اسے امریکا کے حوالے کیا جاسکتا ہے، احمد عمر شیخ نے یہ بھی انتباہ دیا تھا کہ اگر انہیں ملک بدر کردیا گیا تو امریکا کو بھی اسی طرح نقصان اٹھانا پڑے گا جس طرح ہندوستان کو اٹھانا پڑا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: عمر شیخ کی سزائے موت 7 سال قید میں تبدیل، 3 ملزمان رہا

وکیل نے بتایا کہ دفاع کے ایک گواہ مرکزی ملزم کے قریبی رشتے دار رؤف احمد شیخ نے اپنی گواہی میں اعتراف کیا تھا کہ یہ ان کے علم میں تھا کہ عمر شیخ کو ہندوستانی حکام نے گرفتار کیا تھا اور بھارت میں بھی مقدمہ چلایا تھا لیکن بعد میں 1999 میں ہندوستانی ایئرلائن کے طیارے کے اغوا کے مقدمے سے رہا کردیا گیا تھا، البتہ گواہ نے کہا تھا کہ وہ یہ بات یقین سے نہیں کہ سکتے کہ آیا احمد عمر شیخ ہائی جیک کیے گئے ہندوستانی طیارے کے اغوا کاروں نے ان کی رہائی کے مطالبے کے نتیجہ میں رہا کیا تھا۔

جسٹس مشیر عالم، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس یحییٰ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکن بینچ نے سینئر وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے ڈینیئل پرل کی والدہ اور والد روتھ پرل اور جوڈیا پرل کے توسط سے سندھ حکومت کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کی۔

اپیلوں میں 2 اپریل کو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے عمر شیخ کے اغوا اور ڈینیئل پرل کو قتل کرنے کے جرم کی سزا کو ختم کرنے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے 38 سالہ بیورو چیف کو جنوری 2002 میں کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کرتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا، بعدازاں ان کے سر کاٹنے کی ویڈیو کو ایک ماہ بعد امریکی قونصل خانے میں پہنچایا گیا تھا، اس کے بعد عمر شیخ کی گرفتاری کے بعد ٹرائل کورٹ نے موت کی سزا سنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: عمر سعید شیخ: ایک طالبعلم سے مجرم تک کا سفر

لیکن رواں سال 2 اپریل کو سندھ ہائی کورٹ نے عمر شیخ کی سزا کو سات سال قید میں تبدیل کر دیا تھا اور تین دیگر ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب کو بری کردیا تھا جنہیں پہلے کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

بدھ کے روز فاروق ایچ نائیک نے عدالت عظمیٰ کے روبرو استدلال کیا کہ اپیلوں کی قسمت کا تعین کرنے میں پانچ امور اس سے منسلک ہیں جس کے ساتھ عدالت کو ضبط کیا گیا۔

جن امور کو دیکھنے کی ضرورت تھی وہ یہ تھے کہ کیا عمر شیخ نے ڈینیئل پرل کو اغوا کرنے کی سازش کی تھی اور اغوا کے بعد تاوان کا مطالبہ کیا تھا، کیا ڈینیئل پرل کو اغوا برائے تاوان کی سازش کے تحت اغوا کیا گیا تھا اور تاوان کی رقم کا مطالبہ ان کی بیوی سے 27 جنوری 2002 کو ای میل کے ذریعے کیا گیا تھا اور جواب دینے میں ناکامی پر 30 جنوری 2002 کو اس صحافی کو جان سے مارنے کی دھمکی کے ساتھ ایک اور ای میل کی گئی تھی جس میں صحافی کے گلے میں طوق والی تصویر بھیجی گئی تھی۔

کیا یہ سچ نہیں تھا کہ بعد میں تاوان کے مطالبے پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ڈینیئل پرل کا قتل کیا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ کیا ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کے نتیجے میں دہشت گردی نہیں ہوئی اور معاشرے میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا۔

مزید پڑھیں: امریکا کی ڈینیئل پرل قتل کیس کے فیصلے پر تنقید

فاروق ایچ نائیک نے مزید وضاحت کرتے ہوئے ایک صحافی آصف محفوظ فاروقی، راولپنڈی کے اکبر ہوٹل کے استقبالیہ پر موجود امین افضل قریشی اور تحقیقاتی ونگ کے کراچی میں مقیم پولیس انسپکٹر جاوید عباس کی شہادتوں کا حوالہ دیا۔

آصف فاروقی نے اپنے بیان میں اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے ڈینیئل پرل سے ملاقات کی ہے جو بدنام زمانہ جوتے میں بم رکھنے والے رچرڈ کولن ریڈ کی کہانی پر کام کررہے تھے، کہا جاتا ہے کہ رچرڈ کولن ریڈ دراصل سید مبارک علی شاہ گیلانی کے مرید تھے۔

گواہ نے بیان دیا کہ ایک مقدمے میں اشتہاری ملزم عارف نے آصف فاروقی کو بتایا تھا کہ وہ عمر شیخ سے ان کی ملاقات کا بندوبست کر سکتا ہے جو اکبر ہوٹل کے کمرہ نمبر 411 میں قیام پذیر تھا اور عمر شیخ، سید گیلانی سے انٹرویو کا اہتمام کرسکتے ہیں۔

لیکن وکیل نے استدلال کیا کہ یہ ساری دھوکہ دہی تھی اور اصل مقصد ڈینیئل پرل کو اغوا کرنا تھا۔

عمر شیخ نے ہوٹل کا کمرہ مظفر فاروقی کے نام سے بک کیا تھا لیکن جب وہ ڈینیئل پرل سے ملا تو اس نے اپنا تعارف بشیر کے نام سے کرایا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینئیل پرل کے قاتلوں کو رہا کروانے کا منصوبہ ناکام

بعد میں ڈینیئل پرل کراچی گئے جہاں اسے اغوا کرکے قتل کردیا گیا، گواہ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ انہیں صحافی کی اہلیہ کا فون آیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ڈینیئل پرل کراچی میں کسی سے ملاقات کے بعد واپس نہیں آئے تھے۔

گواہ نے ٹرائل کورٹ میں عمر شیخ کی شناخت کی تھی۔

وکیل نے استدلال کیا کہ عمر شیخ کی جانب سے اس نقالی سے پتا چلتا ہے کہ اس نے ڈینیئل پرل کو اغوا اور پھر تاوان کا مطالبہ کرنے کی سازش کی، انہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اتنے جعلی ناموں کی کوئی وجہ نہیں، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس کا واحد مقصد ڈینیئل پرل کو اغوا کرنا اور پھر ان کی رہائی کے لیے تاوان کا مطالبہ کرنا تھا۔

سپریم کورٹ جمعرات کو سماعت جاری رکھے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں