سائنسدانوں نے ایک ایسا آن لائن کیلکولیٹر تیار کیا ہے جو نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے کسی فرد کی موت کے خطرے کی پیشگوئی کرسکتا ہے۔

محققین کے مطابق اس ٹول سے یہ تخمینہ لگانے میں مدد مل سکے گی کہ کن افراد کو اس بیماری سے زیادہ خطرہ لاحق ہے اور انہیں ویکسین کی فراہمی میں ترجیح دینی چاہیے۔

امریکا کے جونز ہوپکنز بلومبرگ اسکول آف پبلک ہیلتھ کے سائنسدانوں نے یہ کیلکولیٹر تیار کیا، جس کے لیے ایسے الگورتھمز استعمال کیے گئے جو متعدد اقسام کے ڈیٹا جیسے سماجی معاشی عناصر اور پہلے سے کسی بیماری کو مدنظر کر بتاتے ہیں کہ اگر آپ کو کووڈ کا سامنا ہو تو موت کا خطرہ کتنا ہوسکتا ہے۔

ویسے تو یہ کیلکولیٹر امریکی شہریوں کے لیے تیار کیا گیا مگر اس سے کوئی بھی کووڈ ہونے پر لاحق خطرے کا اندازہ لگاسکتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر میڈیسن میں شائع ہوئے، جس میں لوگوں سے ان کے طرز زندگی اور صحت کے بارے میں چند سادہ تفصیلات حاصل کی جاتی ہیں۔

متعدد امراض کی طرح یہ واضح ہے کہ کووڈ 19 سے لوگوں پر اثرات مختلف ہوتے ہیں۔

بچوں میں اس بیماری کا خطرہ کم ہوتا ہے اور اگر وہ اس کا شکار ہوتے ہیں تو علامات کی شدت معمولی یا ظاہر ہی نہیں ہوتیں۔

دوسری جانب خواتین کے مقابلے میں مردوں میں اس کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

امریکا میں ایشیائی یا سیاہ فام افراد میں بھی اس بیماری سے موت کا زیادہ خطرہ بتایا جاتا ہے اور کیلکولیٹر میں ان تمام مختلف عناصر کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

محققین کے مطابق یہ ٹول کسی گروپ میں خطرے کی سطح کے تعین کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، تاہم جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ یہ امریکا کے لیے ہے تو وہاں کی آبادیوں کے لیے ہی یہ فیچر کام کرتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ لوگوں کو ممکنہ طور پر علم ہوچکا ہے کہ مختلف امراض جیسے موٹاپا یا ذیابیطس مریضوں کے لیے خطرہ بڑھاتے ہیں، مگر ہمارے کیلکولیٹر میں مختلف عناصر کے ذریعے خطرے کو سمجھنے میں مدد فراہم کی گئی ہے۔

یہ محققین اس سے قبل مختلف امراض جیے کینسر سے لوگوں کو لاحق خطرات کے تجزیے کے ماڈلز پر بھی کام کرچکے ہیں، جس کی بنیاد مریضوں کا پس منظر تھا۔

جب رواں سال کورونا وائرس کی وبا سامنے آئی تو انہوں نے اس سے ملتا جلتا ٹول کووڈ 19 پر بنانے پر توجہ مرکوز کی۔

محققین کو توقع ہے کہ ان کا تول انتظامیہ کے لیے کارآمد ثابت ہوسکے گا اور وہ ویکسینیشن کے لیے گروپس کو ترجیح دے کیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں