اِن لینڈ ٹریبونل نے سیف اللہ برادران کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا

اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2020
برطانیہ کے علاقے میں سیف اللہ خاندان کا ایک فارم ہاؤس —فائل فوٹو: ڈان
برطانیہ کے علاقے میں سیف اللہ خاندان کا ایک فارم ہاؤس —فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد: اِن لینڈ ریونیو کے اپیلیٹ ٹریبونل (اے ٹی آئی آر) نے سیف اللہ برادران کی جانب سے دائر کردہ 5 ایک جیسی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ خیبر پختونخوا کے سیاستدانوں کا ایک خاندان ہے جنہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ان آف شور جائیدادوں پر 5 ارب روپے کا اضافی ٹیکس عائد کرنے کے اقدام کو چیلنج کیا تھا جو پاناما پیپرز میں سامنے آئی تھیں۔

یہ پہلا ایسا کیس ہے جس میں اے ٹی آئی آر ان بنیادوں پر اپنا فیصلہ سنائے گا جس پر اس سے قبل سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قراردیا جاچکا ہے، اس فیصلے کے تحت نواز شریف اور ان کی بیٹی کو جیل بھیجا گیا تھا جبکہ ان کے دونوں بیٹوں کو ٹرائل میں پیش نہ ہونے پر اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مقدمات کے باعث ایف بی آر 88 ارب روپے انکم ٹیکس وصول کرنے سے قاصر

تاہم اے ٹی آئی آر کی کارروائی مختلف ہے کیوں کہ یہ ایف بی آر کی ان لینڈ ریونیو سروس کی معمول کی کارروائی کا نتیجہ ہے جس میں اکتوبر 2018 میں 5 ارب روپے کا اضافی ٹیکس عائد کیا گیا تھا اور سیف اللہ خاندان نے اس اضافی ٹیکس کے نفاذ کو چیلنج کیا تھا۔

ایف بی آر کے اقدام کو چیلنج کرتے ہوئے سیف اللہ خاندان نے اکتوبر 2020 میں اے ٹی آئی آر میں درخواست دائر کی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ اِن لینڈ ریونیو سروس کا حکم گمان، مفروضوں اور قیاس آرائی پر مبنی ہے۔

تاہم ایف بی آر کا کہنا تھا کہ اس گھرانے کی جانب سے متعدد نوٹسز کے جواب میں مختلف دستاویزات جمع کروائی گئیں لیکن آف شور اثاثوں، اخراجات و واجبات کے حوالے سے کاغذ کا ایک صفحہ بھی پیش نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: پراپرٹی ٹیکس میں اضافہ، زیادہ سے زیادہ 35 فیصد عائد ہوگا، ایف بی آر

ایف بی آر کے مطابق اس گھرانے نے سال 2012 کے ویلتھ ریٹرن میں صرف مقامی آمدن، اثاثے اور اخراجات ظاہر کیے تھے لیکن تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیئم (آئی سی آئی جے) نے 3 اپریل 2016 کو پاناما میں موجود لا فرم سے حاصل کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر کچھ معلومات جاری کی تھیں۔

پاناما پیپرز کے نام سے دنیا بھر میں شائع ہونے والے اس ڈیٹا میں سربراہان مملکت، ان کے ساتھیوں، رشتہ داروں، سیاستدانوں اور سرکاری عہدیداران سمیت متعدد افراد کے نام سامنے آئے تھے جنہوں نے ذاتی جائیداد اور دولت کو خفیہ رکھنے اور ان پر ٹیکس استثنیٰ حاصل کرنے کے لیے ٹیکس کے لیے جنت قرار دیے جانے والے علاقوں میں آفشور کمپنیاں بنا رکھی تھیں۔

ایف بی آر کے مطابق ان میں سیف اللہ خاندان کا نام بھی شامل تھا جن کے 34 سے 38 کمپنیوں میں حصص تھے، ان کے نام انور سیف اللہ، اقبال سیف اللہ، جاوید سیف اللہ، سلیم سیف اللہ اور ہمایوں سیف اللہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیکس تعمیل میں اضافے کے لیے ترامیم متعارف

ایف بی آر کی شکایت تھی کہ اس خاندان نے نظرِ ثانی شدہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں آفشور اثاثوں، اخراجات اور واجبات سے متعلق کوئی دستاویز ظاہر نہیں کی تھی۔

ایف بی آر نے کہا تھا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے شواہد چھپانے کا دانستہ اقدام اس حقیقت کو تقویت دیتا ہے کہ اس خاندان نے غیر واضح ذرائع سے یہ آفشور اثاثے/کمپنیاں بنائیں۔

ریگولیٹر کا مزید کہنا تھا کہ اس امکان کو مزید تقویت اس وقت دی جب ان آفشور اثاثوں کے مشترکہ مالکان میں سے ایک جاوید سیف اللہ نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم 2018 کے تحت اپنے کچھ آفشور اثاثے ظاہر کیے تھے۔

مزید پڑھیں: 8 لاکھ نان فائلرز کو نوٹسز جاری کردیے گئے

ایف بی آر نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سیف اللہ خاندان کے خلاف 2012 کے ٹیکس سال کے لیے ریٹرن اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ کی نظر ثانی سے قبل ہی کارروائی کا آغاز کردیا تھا۔

دوسری جانب اضافی ٹیکس عائد کیے جانے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سیف اللہ خاندان نے دعویٰ کیا کہ یہ جائزہ غلط ہے کیوں کہ ان لینڈ ریونیو کا حکم گمان، قیاس اور مفروضوں پر مبنی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں