مقبوضہ کشمیر کے بلدیاتی انتخابات میں مودی مخالف اتحاد اکثر نشستوں پر کامیاب

اپ ڈیٹ 24 دسمبر 2020
مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ضلعی ڈیولپمنٹ کونسل کے اجلاس کے اگلے دن پارٹی ورکرز سے گفتگو کی—فائل فوٹو:
مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ضلعی ڈیولپمنٹ کونسل کے اجلاس کے اگلے دن پارٹی ورکرز سے گفتگو کی—فائل فوٹو:

سرینگر: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کرنے والے سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے بلدیاتی انتخابات میں تقریباً اکثریت نشستیں حاصل کرلی ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع امریکی خبررساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق یہ گزشتہ سال بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کر کے براہ راست کنٹرول سنبھالنے کے بعد منعقد ہونے والے پہلے انتخابات ہیں۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد سخت سیکیورٹی میں پہلے انتخابات

بھارت کے حامی لیکن مقبوضہ کشمیر میں خودمختار حکومت کے حامی اس اتحاد نے 28 نومبر سے 19 دسمبر تک آٹھ مرحلوں میں منعقد ہونے والے ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسل کے انتخابات میں کُل 280 نشستوں میں سے 112 نشستیں حاصل کیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) نے 74 نشستیں جیتیں جبکہ آزاد امیدواروں نے 49 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

دہائیوں پرانی ہندوستان مخالف تحریک کے مرکز وادی کشمیر میں بی جے پی ناکامی سے دوچار ہوئی جہاں اسے صرف تین نشستیں ملی ہیں، بی جے پی کی زیادہ تر نشستیں جموں کے علاقے میں ہندو اکثریتی 4 اضلاع سے آئیں جہاں اسے حمایت حاصل ہے۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ متنازع خطے کے 20 اضلاع کے تقریباً 60 لاکھ اہل رائے دہندگان میں سے 51 فیصد نے اپنی رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے ووٹ کو جمہوریت کا سب سے بڑا تہوار قرار دیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ کچھ باقی نشستوں کے نتائج کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: چین کے تعاون سے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 بحال ہوگا، فاروق عبداللہ

یہ انتخاب اس عمل کا ایک حصہ ہے جس میں رہائشی براہ راست اپنے دیہاتی نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں، جو پھر دیہاتوں کے لیے ترقیاتی کونسلیں تشکیل دینے کے لیے ووٹ دیتے ہیں، بڑی ضلعی ترقیاتی کونسلوں کے اراکین بھی براہ راست منتخب ہوتے ہیں لیکن ان کے پاس قانون سازی کے اختیارات نہیں ہیں اور وہ صرف معاشی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے ذمے دار ہیں۔

ہندوستان نے بارہا اس طرح کے انتخابات کو ترقی کے فروغ اور شہری مسائل کے حل اور بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اہم نچلی سطح کی مشق قرار دیا ہے، گزشتہ سال اگست میں مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے بھارتی حکام نے مقبوضہ علاقے میں انتہائی سختی کر رکھی ہے اور بیشتر علیحدگی پسند رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جنہوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے آئین کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس علاقے کو 2 وفاقی علاقوں لداخ اور جموں کشمیر میں تقسیم کردیا تھا اور زمین اور ملازمت کے سلسلے میں حاصل خصوصی حقوق بھی ختم کردیے تھے۔

مودی کی پارٹی نے متنازع خطے میں اپنے کچھ نامور قومی رہنماؤں کو الیکشن میں کھڑا کیا اور ان کی انتخابی مہم کو تقویت بخشنے اور بنیادی طور پر وادی کشمیر میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کے لیے درجنوں ریلیاں نکالیں، بی جے پی نے نتائج کو اگست 2019 کی تبدیلیوں کے حق میں ریفرنڈم قرار دیا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر انتخابات میں مودی مخالف اتحاد کی واضح کامیابی

اتحاد میں شامل بی جے پی مخالفین میں سے متعدد لوگوں نے بھارتی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ انہیں مہم چلانے سے روک رہی ہے اور ان میں سے کچھ کو حراست میں لے رہی ہے، حکام نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں