برطانیہ میں پھیلے نئے وائرس کے پاکستان پہنچنے کے شواہد نہیں ملے، ڈاکٹر فیصل سلطان

اپ ڈیٹ 25 دسمبر 2020
ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ ہمیں ان ثبوت کی تلاش ہے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز
ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ ہمیں ان ثبوت کی تلاش ہے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ پاکستان میں برطانیہ اور جنوبی افریقہ سے کورونا وائرس کی نئی قسم آنے کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔

پاکستان سوسائٹی فار اَویرنس اینڈ کمیونٹی اِمپاورمنٹ (پیس) کے زیر اہتمام ویڈیو لنک پر ایک مذاکرے (ویبنار) میں ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ 'ہمارے پاس جنوبی افریقہ یا برطانیہ سے نئے وائرس کی منتقلی کے ثبوت نہیں ہیں اور ہم اس کو ڈھونڈ رہے ہیں جن لوگوں میں یہ ملنے کا خدشہ ہے لیکن میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں'۔

مزید پڑھیں: کراچی کے کورونا وائرس نمونوں میں نئی قسم سے مماثلت والی تبدیلیوں کا انکشاف

انہوں نے کہا کہ 'پہلی لہر کا موازنہ کریں تو دوسری لہر میں کیسز میں گزشتہ دس روز سے ٹھہراؤ ہے لیکن اموات پر کوئی ٹھہراؤ نظر نہیں آرہا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس وقت حالات خطرے سے باہر بالکل نہیں ہیں، 111 اموات بہت بڑی تعداد ہے جبکہ ابھی سردیاں بھی باقی ہیں اس لیے احتیاط کا دامن تھامے رکھنا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'آئند چند روز میں ہمیں حالات کچھ بہتر ہوتے نظر آسکتے ہیں لیکن گرمیوں میں کیا ہوگا اس حوالے سے کچھ کہنا ممکن نہیں ہے'۔

ڈاکٹر عطاالرحمٰن کے حوالے سے برطانیہ اور جنوبی افریقہ سے نئی قسم پہنچنے کی خبر سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ 'ان کا بیان میڈیا میں سنا ہے، انہوں نے اگر اس کا کوئی سائنسی ثبوت جاری کیا اور کوئی ثبوت دکھایا ہے تو مجھے اس کا علم نہیں ہے'۔

ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ 'اس وقت میں اتنا بتا سکتا ہوں کہ میرے سامنے کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ ہمارے سامنے نئے وائرس کا کوئی نمونہ موجود ہو'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'موجودہ حالات میں ہمیں ایک چیز پر روشنی ڈالنی ہے کہ حقیقت اور ثابت شدہ چیزوں کو پھیلایا جائے'۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کی نئی قسم زیادہ متعدی ہے، تحقیق

انہوں نے کہا کہ 'برطانیہ میں سامنے آنے والے وائرس کو بھی حفظ ماتقدم کے طور پر وائرس کہا گیا ہے ورنہ اس کے ٹھوس ثبوت نہیں ہیں بلکہ درمیانے سے ہیں اور اگلے چند روز میں واضح ہوگا کہ کیا یہ نتیجہ درست تھا یا نہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'چونکہ یہ پوری دنیا کے عوام کی صحت کا معاملہ تھا تو انہوں نے اچھا کیا اور سب کو خبردار کیا کہ اس چیز پر نظر رکھیں'۔

ویکسین سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'ویکسین کے انتخاب کے لیے ماہرین کے ساتھ مشاورت سے چلے ہیں اور پھر فہرست مختصر کی گئی اور 2021 کی پہلی سہ ماہی (فروری یا مارچ) تک ویکسین دستیاب ہوجائے گی شاید اس سے پہلے بھی ہوجائے اور تین سے چار ویکسین میں سے انتخاب ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ 'پہلے مرحلے میں ایک سے دو ویکیسن ہمیں ملے گی اور پھر عام لوگوں کی اس تک رسائی میرے خیال میں 2021 کی دوسری یا تیسری سہ ماہی مناسب وقت ہوگا کہ جب تک ہم دستیاب کر پائیں اور لگانے کے بھی قابل ہوجائیں'۔

ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ ہماری فیلڈ نجومیوں اور فال نکالنے والوں سے بھر گئی ہے اور بدقسمتی سے اس میں مستند اور سنجیدہ لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی کو مکمل طور پر معلوم نہیں ہے لیکن اب تک جو ثبوت آرہے ہیں اس کے مطابق میرا تخمینہ ہے کہ وقت کے ساتھ یہ وبا ختم ہوجائے گی، ممکن ہے 2021 میں وبا ختم ہوجائے یا اس سے زیادہ کچھ وقت لگے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے خاتمے میں بیماری کے پھیلاؤ سے عوام کے اندر کچھ مدافعت پیدا کر رہی ہے، دوسری چیز ویکسین اور تیسرا وائرس میں وقت کے ساتھ تبدیلی آئے کیونکہ وائرس پھیلتے پھیلتے کمزور ہوجاتے ہیں جو بہت اہم ہے۔

معاون خصوصی برائے صحت نے کہا کہ جنوری میں اسکول کھولنے یا نہ کھولنے کا فیصلہ صوبائی وزرائے تعلیم کے ساتھ اجلاس میں ہوگا، سندھ کے وزیر تعلیم کے خدشات درست ہیں لیکن ہم نے طے کیا تھا کہ جنوری میں اسکول کھولنے سے متعلق پہلا اجلاس ہوگا لیکن ہمارا منصوبہ 11 جنوری کو اسکول کھولنا تھا۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کی دوسری لہر: ملک میں ایک روز میں ریکارڈ 111 اموات

خیال رہے کہ وزیراعظم کی کورونا ٹاسک فورس کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے چیئرمین ڈاکٹر عطاالرحمٰن نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں کورونا وائرس کے کچھ نمونوں میں اسپائیک پروٹین سے متعلق تبدیلیاں پائی گئی ہیں۔

بول ٹی وی چینل کے پروگرام 'دی اسپیشل رپورٹ' میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جامعہ کراچی میں قائم ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز میں وائرس کا جینیاتی تجزیہ کیا گیا جس میں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وائرس تبدیل ہو رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 48 نمونوں میں 109 تبدیلیوں کی نشاندہی ہوئی ہے اور ان میں کچھ تبدیلیاں اسپائیک پروٹین سے تعلق رکھتی ہیں۔

ڈاکٹر عطاالرحمٰن نے بتایا کہ برطانیہ میں سامنے آنے والے تبدیل شدہ وائرس سے اموات کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ اس کے جارحانہ انداز میں تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ جتنے زیادہ لوگ اس سے متاثر ہوں گے اس حساب سے مریض کی اموات ہوں گی۔

وائرس کی بدلتی صورتحال اور ویکسین کے مؤثر ہونے کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ زیادہ توقع اسی بات کی ہے کہ ویکسین وائرس کی تبدیل شدہ ہیئت پر بھی اثر انداز ہوگی تاہم حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں