'ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلز پارٹی کا مؤقف کئی معاملات پر ایک ہے'

اپ ڈیٹ 30 دسمبر 2020
ایم کیو ایم اور پی پی پی کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی — فوٹو: ڈان نیوز
ایم کیو ایم اور پی پی پی کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی — فوٹو: ڈان نیوز

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ دونوں جماعتوں کا کئی چیزوں پر مؤقف ایک ہے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے جبکہ مردم شماری کے معاملے پر متفق ہیں۔

کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دو بڑی نمائندہ جماعتیں ہیں جنہوں نے مردم شماری کو قبول نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم واحد جماعت ہے جو پٹیشن لے کر سپریم کورٹ گئی اور آج ہماری پٹیشن عدالت میں موجود ہے، سینیٹ میں تمام جماعتوں کے اراکین نے کچھ شرائط عائد کی تھیں کہ ان شرائط کے بغیر مردم شماری کو حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: مردم شماری 2017 پر صوبوں کے تحفظات دور کیے جائیں، وزیر اعلیٰ سندھ

فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ ہم نے 3 اگست 2018 کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ معاہدہ کیا اور پہلی شق یہی رکھی کہ مردم شماری کے حوالے سے پارلیمان کی جو قراردادیں ہیں ان کو مدنظر رکھا جائے اور شکایات کا ازالہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ معاہدے میں شامل تھا کہ ہم سب کا ماننا ہے کہ صوبہ سندھ میں ان کو کم گنا گیا ہے، وزیراعظم نے کابینہ کی کمیٹی بنائی اور ایم کیو ایم کی طرف سے امین الحق نے نمائندگی کی اور بتاتے رہے ہیں کہ کہاں ڈنڈی ماری گئی ہے اور یہ منظم انداز میں کیا گیا جس کو ہم مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ماہرین بھی کمیٹی میں گئے اور انہیں بتایا کہ مختلف رہائشی بلاکس میں گھر کم گنے ہیں اس لیے وہاں مردم شماری بھی کم کرنی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کی کمیٹی نے اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کو پیش کی جہاں اس کو اکثریتی رائے سے منظور کیا گیا جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کے امین الحق نے اس پر تحریری اور زبانی مخالفت بھی کی۔

ایم کیو ایم کے رہنما نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ جہاں وسائل آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہوں، جہاں سیاسی نمائندگی، مالی، آبی اور تعلیمی وسائل میں لوگوں کو درست طور پر گنا جانا بہت ضروری ہو وہاں ایک صوبے اور اس کے دارالحکومت کو اگر درست نہیں گنیں گے تو وفاق ان کی حق تلفی کا مرتکب ہوگا۔

مزید پڑھیں: ایم کیو ایم کا مطالبہ جائز لیکن مردم شماری 2022 میں شروع ہوگی، گورنر سندھ

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں شہری سندھ اور پیپلز پارٹی جو پورے سندھ میں موجود ہے، ہمیں یہ منظور نہیں ہے اور ہم اپنی پٹیشن بھی پی پی پی کو پیش کرنے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پی پی پی سے درخواست کی ہے کہ یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) میں زیر بحث ہوگا جہاں وزیر اعلیٰ سندھ صوبے کی نمائندگی کریں گے تو جس طرح انہوں نے وزیراعظم کو خط لکھا ہے انہی خطوط کی بنیاد پر وہاں بھی اس مسئلے کو اٹھائیں گے۔

فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ 2017 کی مردم شماری میں پائی جانے والی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے آڈٹ کا عمل فی الفور کیا جائے جو پارلیمان کی مشترکہ دانش کا مظہر ہے۔

اس موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما تاج حیدر نے کہا کہ سینیٹ میں وزیراعظم کی صدارت میں تمام پارلیمانی لیڈروں کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ ہم 2017 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کو نہیں مانتے اور 5 فیصد بلاکس پر پھر سے مردم شماری کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ دوسرے صوبوں سے آئے ہیں انہیں سندھ میں شمار نہیں کیا گیا اور اس سے ہماری حق تلفی ہوئی ہے، ہمارے حساب کے مطابق مرتب دستاویزات پیش کی ہیں جس کا ایم کیو ایم تجزیہ کر رہی ہے۔

تاج حیدر نے کہا کہ ہماری ایک کروڑ 40 لاکھ کے قریب آبادی کم کردی گئی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے مالی وسائل اور نمائندگی میں فرق پڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ جو معاہدہ ہوا ہے اس پر عمل درآمد کیا جائے کیونکہ اس پر تمام سیاسی جماعتوں کے دستخط موجود ہیں۔

پی پی پی کے سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ ہمارا اتفاق ہوا ہے کہ ہمارے درمیان رابطہ جاری رہے گا اور صوبے سے متعلق مسائل پر ایک دوسرے کا مؤقف سنیں گے اور کوشش کریں گے کہ کوئی راہ نکلے۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت سی چیزوں پر ہم دونوں جماعتوں کا مؤقف ایک ہے اور اس پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور شہر میں جن کو مینڈیٹ دیا گیا ہے اس پر بھی بات ہوئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں