سسٹم کے واپس آن لائن آنے میں مزید کچھ گھنٹے لگیں گے، وزیر توانائی

اپ ڈیٹ 10 جنوری 2021
وزیر توانائی اور وزیر اطلاعات نے پریس کانفرنس کی—اسکرین شاٹ
وزیر توانائی اور وزیر اطلاعات نے پریس کانفرنس کی—اسکرین شاٹ

وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ملک میں بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن سے متعلق کہا ہے کہ رات 11 بجکر 41 منٹ پر گدو کے پلانٹس میں خرابی آئی جس کی وجہ سے فریکوئنسی نیچے آئی اور بریکر بند ہوگئے تاہم مختلف علاقوں میں بحالی کا کام جاری ہے اور سسٹم کے واپس آن لائن آنے میں ابھی مزید چند گھنٹے لگیں گے۔

اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں وزیر توانائی عمر ایوب نے بتایا کہ 11 بجکر 41 منٹ پر گدو کے پاور پلانٹس پر خرابی آئی اور ایک سیکنڈ میں فریکوئنسی جو 49.5 ہرڈز ہوتی ہے وہ نیچے آگئی اور یکے بعد پاور پلانٹس کے سیفٹی نظام نے شٹ ڈاؤن ہونا شروع کردیا۔

انہوں نے کہا کہ پورے ملک، اوپر، شمال، جنوب میں یہ سسٹم میں گیا اور پورے ملک جہاں ہمارے پاور پلانٹس چل رہے تھے اور 11 بجکر 41 منٹ پر 10 ہزار 302 میگا واٹ ایک دم سے سسٹم سے آؤٹ ہوگئے۔

وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ اس کے فوری بعد میں نیشنل پاور کنٹرول سینٹر پہنچا اور میڈیا اور قوم کو اعتماد میں لیا، تربیلا کو ہم نے 2 مرتبہ شروع کیا اور وہ سنک ہوگیا۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے بجلی کی بحالی کا کام شمال سے شروع کیا اور اس وقت اسلام آباد، راولپنڈی، آئیکسو کا نظام، لاہور الیکٹرک کے علاقے، فیصل آباد کے آدھے شہر میں بجلی آچکی تھی جبکہ کراچی الیکٹرک کو تقریباً 400 میگا واٹ سپلائی ہوچکی ہے تاہم سسٹم کے واپس مکمل آن لائن آنے میں ابھی مزید چند گھنٹے لگیں گے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں وجوہات کا علم نہیں، رات میں بھی ہم نے ٹیمیں بھیجی تھیں لیکن دھند کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرہا تھا جبکہ صبح بھی ہماری ٹیمز سے بات ہوئی تاہم 500 کے وی کی لائن میں فالٹ نظر نہیں آیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے دھند کم ہوگی تو تحقیقات ہوں گی کہ یہ فالٹ کہاں آیا۔

مزید پڑھیں: توانائی کے شعبے میں اصلاحات تین ہفتوں میں مکمل کر لیں گے، عمر ایوب

نظام کی بہتری سے متعلق انہوں نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی اس وقت ٹرانسمیشن پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا، ہم نے آتے ہی 49 ارب روپے اس سسٹم پر لگائے جس کی وجہ سے 4 سے ساڑھے 4 ہزار میگا واٹ سسٹم میں نکال سکتے ہیں، اس سے قبل جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی تو 18 سے ساڑھے 18 ہزار میگا واٹ سے زیادہ ترسیل نہیں کرسکتے تھے لیکن ہم اسے 23 سے 24 ہزار میگا واٹ تک گزشتہ گرمیوں میں لے کر گئے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے سسٹم پر سرمایہ کاری کرکے یہ سب کیا، گزشتہ 2 سردیوں میں ہم نے ’اینٹی فاگ ڈس انسولیٹڈ ڈسک‘ لگائے، لائن واشنگ مینٹی ننس کا کام کیا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ابھی ہم تحقیقات کر رہے ہیں لیکن حتمی وجوہات میں ابھی جانہیں سکتا جب تک تحقیقات مکمل نہ ہوں، بظاہر گدو کے پاور پلانٹ کے اندر، باہر، یارڈ کے اندر ابھی تک ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔

وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ مٹیاری سے لاہور تک کی لائن مارچ تک آپریٹ ہوجائے گی جس پر ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کی لاگت آرہی ہے، مزید یہ کہ 2 لائن کی ری کنڈکڈنگ کر رہے ہیں کے ڈی اے ون اینڈ ٹو سے جام شورو، جس سے ایک اسپیئر لائن ہمارے پاس آجائے گی اور مستقبل میں ایسی کسی چیز کے ہونے پر ہم اس سے زیادہ بہتر طریقے سے نمٹ پائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کا واقعہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ہوتا رہا ہے تاہم دیکھا یہ ہوتا ہے کہ سسٹم کتنی جلدی ردعمل دیتا ہے۔

دوران گفتگو مسلم لیگ (ن) کے سابق دور حکومت کے اعداد و شمار سے متعلق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 2013 سے ان کی دور حکومت میں اس طرح کے 8 واقعات ہوئے تھے تاہم ہمارے آنے سے یہ ہوا کہ ہم نے سسٹم پر سرمایہ کاری کی، اسے بہتر کیا اور ہم نے اس نظام کو مزید بہتر بنانا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا ملک میں متبادل توانائی کے انحصار کو 20 فیصد تک کرنے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ہم ترسیلی نظام پر بھی کافی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

اس موقع پر سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی نظام کا یہ المیہ ہے کہ گرمیوں میں سسٹم 24 سے 25 ہزار پر جاتا ہے تاہم سردیوں میں طلب کم ہوجاتی ہے جو 13 سے 14 ہزار تک جارہی ہوتی ہے جبکہ رات کے گیارہ سے 12 بجے 10 ہزار کے لگ بھگ ہوتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہاں (گدو) سے 500 کے وی کے 3 سرکٹ نکلتے ہیں لیکن ابھی یہ معلوم نہیں ہورہا کہ کس سرکٹ میں خرابی آئی تھی۔

سسٹم سے متعلق سوالات پر انہوں نے کہا کہ جب سسٹم میں ایک فالٹ آتا ہے تو وہ پورے نظام میں چلاجاتا ہے اور فریکوئنسی میں جب اتار چڑھاؤ آتا ہے تو سسٹم میں لگے بریکر خودکار طور پر شٹ ڈاؤن ہوجاتے ہیں۔

عمر ایوب نے مزید بتایا کہ گزشتہ 2 سال کے دوران فاگ سے متعلق ایک بھی ٹرپنگ نہیں آئی، جس کی وجہ ہم نے لائن کو صاف کیا اور ایسے کوئی ٹرپنگ نہیں ہوئی جبکہ یہ پہلی مرتبہ اس نوعیت کی پہلی ٹرپنگ ہے، جس کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔

پریس کانفرس میں مختلف سوالات پر انہوں نے بتایا کہ 16 مئی 2018 کو ایک جزوی بریک ڈاؤن ہوا تھا جو 9 گھنٹے 13 منٹ کا تھا اور یہ ملک بھر میں نہیں تھا۔

تحقیقات سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ابھی ہم ایک ایمرجنسی سے نکلے ہیں، ہم پوری رات نیشنل پاور کنٹرول سینٹر میں تھے اور سسٹم کو دیکھ رہے تھے، اس وقت سسٹم مستحکم ہوچکا ہے، جس کے بعد ہم آزادانہ تحقیقات کا حکم دیں گے اور حقائق سامنے آجائیں گے، چونکہ یہ تکنیکی نوعیت کا کام ہے لہٰذا انجینئر ہی اس کو دیکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سسٹم میں بہتری کے لیے مزید 2 ٹرانسمیشن لائن لگا رہے ہیں، جن کی استعداد مجموعی طور پر 600 میگا واٹ ہوگی۔

توانائی کا شعبہ ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، وزیر اطلاعات

قبل ازیں وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پورے ملک میں بتدریج بلیک آؤٹ ہوا جس سے تعطل پیدا ہوا اور مختلف چہ مگوئیاں ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا توانائی کا شعبہ ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ ہوا کہ اس شعبے پر صرف ایک سمت میں کام ہوا اور ماضی کی حکومتوں میں اس کی جنریشن پر توجہ دی گئی، حالانکہ اس نظام کے 3 پہلو ہوتے ہیں جس میں پیداوار، ترسیل اور تقسیم شامل ہوتی ہے، اس میں سے اگر ایک بھی کام نہ کر رہا ہوں تو ساری محنت ضائع ہوجاتی ہے۔

مزید پڑھیں: بجلی بحران: کے-الیکٹرک سسٹم اپ گریڈنگ میں ناکامی پر مسائل کا شکار ہے، وزارت توانائی

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ جب بجلی بنتی ہے تو اسے اٹھانے کے لیے جو نظام ہوتا ہے اسے ترسیل کہتے ہیں اور اب اگر اس پر کام نہ ہو تو آپ پیداواری پلانٹ سے بجلی نہیں اٹھا سکتے، ہماری 36 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار ہے تاہم بدقسمتی سے ترسیل اس سے مطابقت نہیں رکھتی اور سسٹم 24 سے 25 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 26 ہزار تک اٹھانے کے قابل ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ نظام اپ ڈیٹ نہ ہو تو مسائل پیدا ہوسکتے ہیں تاہم ہماری حکومت ترسیل کے نظام پر توجہ دے رہی ہے۔

بجلی کے بریک ڈاؤن کے بعد سامنے آنے والی افواہوں پر انہوں نے کہا کہ یہ بریکنگ نیوز نہیں کہ ہم سب سے پہلے خبر دیں کہ یہ ہوگیا ہے کیونکہ بطور ترجمان یہ فرض بنتا ہے کہ جب تک ایک جامع اور تصدیق شدہ خبر نہ ہو اسے جاری نہ کیا جائے، لہٰذا یہ 45 منٹ کا وقفہ مصدقہ اطلاعات کی فراہمی کی وجہ سے آیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نجی ٹی وی چینلز کی طرح بریکنگ نیوز نہیں دیتی، ہمارا کام مصدقہ اطلاع دینا ہے جو ہم نے 45 منٹ میں دے دی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں