کووڈ 19 کے مریضوں میں دماغی مسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں، تحقیق

10 جنوری 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو

کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہوکر آئی سی یو میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں دماغی افعال کی محرومی کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی، جس کے نتائج طبی جریدے دی لانسیٹ ریسیپٹری میڈیسین میں شائع ہوئے۔

امریکا کی وینڈربلٹ یونیورسٹی میڈیکل یونیورسٹی نے اس تحقیق کے لیے اسپین کے محققین سے اشتراک کیا تھا۔

یہ اس حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں 28 اپریل 2020 سے قبل 14 ممالک میں آئی سی یو میں زیرعلاج کووڈ کے 2088 مریضوں میں دماغی ہذیان اور کوما کا جائزہ لیا گیا تھا۔

آئی سی یو میں مریضوں میں دماغی ہذیان کو عام طور پر زیادہ طبی اخراجات، موت کے زیادہ خطرے اور طویل المعیاد بنیادوں پر ڈیمینشیا کے خطرے سے جوڑا جاتا ہے۔

اس تحقیق میں شامل 82 فیصد مریضوں کے کوما میں رہنے کا اوسط دورانیہ 10 دن تک تھا جبکہ 55 فیصد میں ہذیان کی کیفیت اوسطاً 3 دن تک برقرار رہی۔

دائمی دماغی ڈس فکنشن (کوما یا ہذیان) کا اوسط دورانیہ ان مریضوں میں 12 دن تھا۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ دورانیہ کووڈ کی بجائے کسی اور مرض کے باعث آئی سی یو میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہے۔

محققین نے ایک پرانی آئی سی یو میں مریضوں پر ہونے والی تحقیق کا حوالہ بھی دیا، جس میں دیگر امراض میں دائمی دماغی ڈس فنکشن کا اوسط دورانیہ 5 دن تک قرار دیا گیا تھا، جس میں 4 دن کوما اور ایک دن ہذیان کا تھا۔

محققین نے بتایا کہ کووڈ 10 کے نتیجے میں مریضوں میں اس کا مسئلہ بہت زیادہ اور بہت زیادہ بوجھ بڑھاتا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ طبی مراکز اس کی روک تھام کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ روایتی نگہداشت کے طریقوں بشمول ڈیپ سیڈیشن، مرکزی اعصابی نظام کے لیے benzodiazepine کا استعمال، امبولائزیشن اور آئسولیشن سے مریضوں کو مدد فراہم کی جاسکتی ہے۔

محققین نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے ساتھ ایسا نظر آتا ہے کہ نئے طبی پروٹوکولز کو چھوڑ دیا گیا ہے جو کہ دائمی دماغی ڈس فنکشن کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

دسمبر میں طبی جریدے یوروسائنسز میں شائع تحقیق میں چوہوں پر تجربات کے دوران دریافت کیا گیا کہ اسپائیک پروٹین، خون اور دماغ کے درمیان رکاوٹ کو عبور کرسکتا ہے۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن اسکول آف میڈیسین اور پیوگیٹ ساؤنڈ ویٹرنز افیئرز ہیلتھ کیئر سسٹم کی اس مشترکہ تحقیق کی قیادت کرنے والے ولیم اے بینکس نے بتایا کہ عموماً اسپائیک پروٹین خلیات میں داخلے میں مدد دیتا ہے، مگر ایسے پروٹینز بذات خود بھی اس وقت تباہی مچاتے ہیں جب وہ وائرس سے الگ ہوتے ہیں اور ورم بھی بڑھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایس 1 پروٹین ممکنہ طور پر دماغ کو سائٹو کائینز اور ورم بڑھانے والے مالیکیولز کے اخراج پر مجبور کرتا ہے۔

کووڈ 19 کے نتیجے میں سنگین حد تک بیمار ہونے والے مریضوں میں اکثر مدافعتی نظام کے شدید ردعمل کا نتیجہ سائٹو کائین اسٹروم کی شک میں نکلتا ہے جو صحت مند خلیات پر حملہ آور ہوجاتا ہے، جبکہ دماغی دھند، تھکاوٹ دیگر ذہنی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں شامل ماہرین نے اس طرح کا ردعمل ایچ آئی وی وائرس میں دیکھا تھا اور وہ جاننا اہتے تھے کہ کیا نئے کورونا وائرس کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے یا نہیں۔

محققین نے بتایا کہ اس وائرس کا ایس 1 پروٹین اور ایچ آئی وی کا جی پی 120 پروٹین کے افعال ایک جیسے ہوتے ہیں۔

یہ دونوں پروٹینز ریسیپٹر کو جکڑ لیتے ہیں اور اپنے وائرسز کو پھیلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور یہ دونوں خون۔دماغ کی رکاوٹ کو عبور کرلیتے ہیں اور ممکنہ طور پر جی پی 120 کی طرح ایس 1 پروٹین دماغی ٹشوز کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ کووڈ سے سانس لینے میں مشکل ہوسکتی ہے اور یہ پھیپھڑوں کو بھی متاثر کرسکتی ہے، مگر ہمارے تجربات کے دوران دریافت کیا گیا کہ ایس 1 پروٹین مادہ کے مقابلے میں نر چوہوں کی حس شامہ اور گردوں تک بہت تیزی سے سفر کرتا ہے، اس مشاہدے سے یہ ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں میں کووڈ 19 کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ کیوں ہوتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں