سول سروسز اصلاحات نئی بوتل میں پرانی شراب کی طرح ہیں، مبصرین

اپ ڈیٹ 22 جنوری 2021
پی ٹی آئی حکومت نے پیش کردہ بیشتر اصلاحات کا تعلق مشرف دور سے ہے، سابق بیوروکریٹ - فائل فوٹو:ڈان نیوز
پی ٹی آئی حکومت نے پیش کردہ بیشتر اصلاحات کا تعلق مشرف دور سے ہے، سابق بیوروکریٹ - فائل فوٹو:ڈان نیوز

اسلام آباد: مبصرین کا کہنا ہے کہ سول سروس میں نئی متعارف کروائی گئی اصلاحات نئی بوتل میں پرانی شراب کی طرح ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے ترقی کو روکنے اور مجرم سرکاری ملازمین کے خلاف تعزیراتی اقدامات اٹھانے کے اعلان کردہ بیشتر اہم اقدامات سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے متعارف کردہ قوانین کا حصہ ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اصلاحات ایک آرڈیننس کے ذریعے متعارف کروائی گئیں یا اس کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذریعے معمول کے کام کی طرح نوٹیفائی کیا گیا تھا اور ان کے چند حصوں کو بعد میں عدالتوں نے ختم کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: سول سروس اصلاحات، افسران کی ترقی کا کڑا معیار مقرر، 'جبری' ریٹائرمنٹ کی راہ ہموار

انہوں نے کہا کہ 'اس بار تبدیلیاں سول سروس ایکٹ اور دیگر متعلقہ قوانین کے مطابق ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے اس وقت اصلاحات کو متعارف کروانے میں غلطی کی تھی کہ ہم ایک سال کا انتظار کرتے رہے تاہم جب ہم اصلاحات پیکیج کو حتمی شکل دے رہے تھے مشرف حکومت پہلے ہی اپنے اختتام پر تھی'۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے دو روز قبل سول بیوروکریسی میں اصلاحات متعارف کرائیں کی جس سے مجرم عہدیداروں کی ’جبری‘ ریٹائرمنٹ اور بیوروکریٹس کی ترقی کے لیے سخت معیارات کو متعارف کرانے کی راہ ہموار ہوگی۔

اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے 27 مئی 2000 کو سروس سے ہٹانے (خصوصی اختیارات) آرڈیننس 2000 کا اعلان کیا تھا جس کے تحت مجاز اتھارٹی کو نااہل افسران کو ملازمت سے برطرف کرنے کا اہل بنایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سرکاری افسران کی ترقیوں کا معاملہ قانونی پیچیدگی کے باعث التوا کا شکار

ایک سابقہ بیوروکریٹ، جو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور وہ سول سروس کے قوانین سے بخوبی واقف ہیں، کے مطابق پی ٹی آئی حکومت نے پیش کردہ بیشتر اصلاحات کا تعلق مشرف دور سے ہے جس سے بیوروکریسی میں تشویش پیدا ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سول سرونٹس (سروس سے ڈائرکٹری ریٹائرمنٹ) رولز 2020 کے تحت ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ کی بنیادوں میں تین ذاتی تشخیصی رپورٹس (پی ای آر) میں تین منفی یا تین پی ای آرز میں نامناسب ریمارکس، دو بار 21 گریڈ یا اس سے نیچے ترقی کے لیے 2 مرتبہ مسترد کیا جانا یا 22 گریڈ کے لیے سفارش نہ کیا جانا یا پلی بارگین یا رضاکارانہ واپسی استعمال کرنا شامل ہے۔

ان کے بقول عہدہ لے لینا بھی ایک سزا ہے اور اگر کسی عہدیدار کو عہدہ چھننے کی وجہ سے ملازمت سے برطرف بھی کردیا جائے تو یہ دوہری سزا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں مجاز اتھارٹی کی جانب سے سرکاری ملازم کے خلاف انکوائری کا تصور بھی پیش کیا گیا تھا تاہم اس میں وقت کی بچت کا طریقہ کار نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اب حکومت نے انکوائری کے مکمل ہونے کے لیے 105 روز کا ٹائم فریم طے کیا ہے تاہم مجھے شک ہے کہ کیا یہ ممکن بھی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس طرح کے وقت کی مدت کے چند قانون پہلے ہی موجود ہیں جیسے انسداد دہشت گردی ایکٹ انسداد دہشت گردی عدالت سے ایک دو ہفتوں میں ایک مقدمے کی سماعت مکمل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور قومی احتساب آرڈیننس کسی مقدمے کی سماعت مکمل ہونے کے لیے 30 دن کی ٹائم لائن طے کرتا ہے تاہم ان عدالتوں میں ایک بھی مقدمے کا اختتام وقت پر نہیں ہوتا'۔

مزید پڑھیں: حکومت کا طرز حکمرانی میں بہتری کیلئے اہم سول سروس اصلاحات کا اعلان

سابقہ بیوروکریٹ نے کہا کہ 'اصلاحات 105 دنوں میں انکوائری مکمل کرنے کی ایک آخری تاریخ طے کرتی ہیں تاہم عملی طور پر اس مشق کو مکمل ہونے میں مہینوں لگتے ہیں اور تاخیر پر کسی کو تفتیشی افسر سے پوچھ گچھ کرنے کی کبھی جرات نہیں ہوتی'۔

ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ پرانے اور موجودہ قوانین میں کچھ مماثلت ہوسکتی ہے تاہم محتاط مطالعہ کرنے اور ماضی کی خرابیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان اصلاحات کو نوٹیفائی کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے ہر ایک اصول کا جائزہ لیا ہے اور انہیں پارلیمنٹ سے منظور کرایا ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں