سرکاری افسران کی ترقیوں کا معاملہ قانونی پیچیدگی کے باعث التوا کا شکار

اپ ڈیٹ 03 دسمبر 2018
فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین سی ایس بی کے بھی سربراہ ہیں—فائل فوٹو
فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین سی ایس بی کے بھی سربراہ ہیں—فائل فوٹو

اسلام آباد: سینٹرل سیلیکشن بورڈ (سی ایس بی) کے اراکین کے درمیان صوابدیدی اختیارات کے تنازعے کی وجہ سے پیدا ہونے والی قانونی پیچیدگیوں کے سبب سیکڑوں اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کی ترقی التوا کا شکار ہوگئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گریڈ 20 کے سرکاری افسران کی گریڈ 21 میں ترقی کے لیے گزشتہ ہفتے سی ایس بی کا غیر معمولی طویل اجلاس ہوا جس میں کسی ایک بھی کیس پر فیصلہ نہیں ہوسکا۔

پروموشن کے بجائے، فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف سی پی ایس) کے چیئرمین، جو سی ایس بی کے بھی سربراہ ہیں، نے معاملے کو سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے حالیہ فیصلے کی روشنی میں حل کرنے کے لیے اٹارنی جنرل سے رہنمائی لینے کا فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کا مزید سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سی ایس بی کے اراکین کے 15 نکات پر ترقی کی سفارش کرنے کے صوابدیدی اختیارات غیر قانونی قرار دے کر سینئر افسران کی ترقی کے نئے پیمانے وضع کیے تھے۔

چناچہ اس سلسلے میں 4 اور 7 دسمبر کو منعقد ہونے والے اجلاس سے قبل اٹارنی جنرل آف پاکستان کی رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ایف سی پی ایس کے سربراہ نے 26 نومبر کو ایس سی بی کے اراکین کو بتایا کہ بورڈ کے پاس 15 نکات پر افسران کی گریڈ 20 سے 21 میں ترقی کی سفارش کرنے کا اختیار اب موجود نہیں کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے جاری کردہ میمورنڈم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا افسران کی بڑی سرکاری رہائشگاہیں رکھنے کا نوٹس

انہوں نے مزید بتایا کہ اعلیٰ عدالت نے رواں برس 25 اکتوبر کو دیے گئے فیصلے میں 15 نکاتی پیمانے کو منسوخ کردیا تھا۔

اس پر سی ایس بی کے اراکین کی جانب سے خاصی برہمی کا اظہار کیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ جب ان کے پاس ترقیوں کے کیسز کے حوالے سے فیصلے کا اختیار ہی نہیں تو بورڈ میں ان کی شمولیت غیر معنی ہے۔

جس کے بعد سربراہ ایف سی پی ایس نے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اس حوالے سے جائزہ لینے کے لیے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے رابطہ کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 25 اکتوبر کو دیے گئے احکامات میں خبردار کیا تھا کہ ’اگر وفاقی حکومت ہمارے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگی تو ہم تحمل مزاجی ایک جانب رکھ کر اس میں ملوث تمام افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: 9 سرکاری افسران اضافی تنخواہیں واپس نہیں کررہے، نیب کی سپریم کورٹ میں رپورٹ

دوسری جانب سرکاری افسران کی جانب سے ایک ماہ کے دوران بھی سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد نہ روکے جانے پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا گیا اور ذمہ داروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجو ع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں