موٹرویز پر 2 سال کے دوران جرائم میں 120 فیصد اضافہ

اپ ڈیٹ 24 جنوری 2021
مسافروں کو ضرورت کی صورت میں فوری طور پر موٹروے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کرنے کی ہدایت کی گئی — تصویر: موٹروے پولیس فیس بک
مسافروں کو ضرورت کی صورت میں فوری طور پر موٹروے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کرنے کی ہدایت کی گئی — تصویر: موٹروے پولیس فیس بک

اسلام آباد: اگر مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گزشتہ 2 سال کے عرصے میں ملک میں موٹرویز پر جرائم کی شرح میں 120 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی شاہدہ رحمانی کے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے اعداد و شمار پیش کیے جن کے مطابق سال 2017 اور 2018 میں موٹرویز کے مختلف حصوں پر جرائم کے 10 واقعات رپورٹ ہوئے تھے لیکن 2019 اور 2020 میں تعداد بڑھ کر 22 تک پہنچ گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک میں موٹرویز پر جرائم کا معاملہ اس وقت زیر بحث آیا جب 9 ستمبر کو 2 بچوں کی ماں کو لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر اس کے بچوں کی موجودگی میں ریپ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے واقعہ: حکومت ہوش کے ناخن لے اور پولیس میں سیاسی مداخلت روکے، چیف جسٹس

اس واقعے پر حکومت کو اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

تحریری جواب میں وفاقی وزیر نے موٹروے کو مسافروں کے لیے محفوظ بنانے کے لیے حکومت کے اٹھائے گئے اقدامات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ 'رات کے اندھیرے میں گشت کرنے والی گاڑیوں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے'۔

وزیر کے مطابق رات کے اوقات میں زیادہ جرائم والے علاقوں میں اینٹی کرائم اسکواڈ کو اسلحہ و گولہ بارود سمیت سڑکوں کے کنارے، انڈر پاسز اور فلائی اوورز کو چیک کرنے کے ضروری آلات کے ساتھ تعینات کیا گیا ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ مسافروں کو رات گئے موٹرویز پر رکنے کے مقامات کے علاوہ نیشنل ہائی ویز اور موٹرویز پولیس کی گاڑیوں کے قریب رکنے کے سوا کہیں بھی غیر ضروری طور پر نہ رکنے اور ضرورت کی صورت میں فوری طور پر موٹروے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: موٹر وے ریپ کیس کی کوریج پر پابندی کے حوالے سے پیمرا کا حکم معطل

اس کے علاوہ خصوصاً رات کے اوقات میں مشتبہ گاڑیوں کی اسنیپ چیکنگ بھی کی جاتی ہے۔

تحریری جواب کے مطابق 'جرائم سے بچنے کے لیے مووی بننے کے ہر مقام پر ہر ایک عوامی گاڑی کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی یقینی بنائی جارہی ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول نیشنل ہائی اے اتھارٹی (این ایچ اے) فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او)، مقامی پولیس اور ریسکیو سروسز آن بورڈ ہیں۔

جواب میں کہا گیا کہ این ایچ اے اور ایف ڈبلیو او سے درخواست کی گئی ہے کہ متعلقہ حلقوں کو سڑکوں کے کناروں سے جھاڑیاں اور گھاس پھوس صاف کرنے کی ہدایت کی جائے۔

5 سال میں سعودی عرب میں 15 ہزار 294 پاکستانی حادثات میں جاں بحق ہوئے، وزیر خارجہ

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شیر اکبر خان کے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی تحریری جواب جمع کروایا جس میں اسمبلی کو آگاہ کیا گیا کہ سال 2015 سے 2020 تک سعودی عرب میں مختلف حادثات میں 15 ہزار 294 پاکستانی جاں بحق ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کے تنازعات سے بھرپور 2 سال

جب پوچھا گیا کہ کیا جو افراد حادثات میں ہلاک ہوئے ان کے اہلِ خانہ کو دیت یا انشورنس کی ادائیگی کی گئی تو وزیر خارجہ نے بتایا کہ 5 سال کے عرصے میں ایک کروڑ 89 لاکھ سعودی ریال دیت کا واجبات کی مد میں ادا کیے گئے۔

جواب میں یہ بھی بتایا گیا کہ 'مقامی قوانین کے مطابق مرنے والے کے قانونی ورثا جنرل آفس آف سوشل انشورنس سے متوفی کی انشورنس ادائیگی کا دعویٰ کرسکتے ہیں'۔

سعودی عرب میں نافذ شرعی قوانین کے مطابق مرنے والے تارکین کے وطن ٹریفک پولیس کی جانب سے حادثے کی ذمہ داری کے تعین کے بعد 3 لاکھ سعودی ریال دیت حاصل کرسکتے ہیں تاہم اگر ذمہ داری جاں بحق ہونے والے پاکستانی پر عائد ہوئی تو کوئی دیت ادا نہیں کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں