سیاستدانوں، ججوں اور جرنیلوں کو ترجیحی بنیاد پر ویکسین دینے کے خدشات مسترد

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2021
پاکستان اتوار کو 5 لاکھ کورونا ویکسین کی پہلی کھیپ چین سے وصول کرے گا، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور - فائل فوٹو:اے پی پی
پاکستان اتوار کو 5 لاکھ کورونا ویکسین کی پہلی کھیپ چین سے وصول کرے گا، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور - فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: سینیٹ کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ کورونا وائرس کے قطرے پلانے کے لیے اشرافیہ کو ترجیح نہیں دی جائے گی۔

سینیٹرز شیری رحمٰن اور عائشہ رضا فاروق کی جانب سے پیش کیے گئے توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے ویکسین سیاستدانوں، جرنیلوں اور ججز کو ترجیحی بنیاد پر دیے جانے کے حوالے سے خدشات کو مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ترجیح صرف فرنٹ لائن ہیلتھ کیئر پروفیشنلز، بوڑھوں اور اساتذہ سمیت اعلی رسک کی کیٹیگری میں آنے والوں کو دی جائے گی۔

مزید پڑھیں: طبی عملے کو مفت کورونا ویکسین فراہم کرنے کا اعلان

انہوں نے کہا کہ ویکسینیشن کے لیے رجسٹریشن آن لائن پورٹل یعنی نیشنل امیونائزیشن مینجمنٹ سسٹم (نمز) کے ذریعے کیا جائے گا۔

وزیر نے کہا کہ پاکستان اتوار کو 5 لاکھ کورونا ویکسین کی پہلی کھیپ چین سے وصول کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ نے عالمی بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے ساتھ ویکسین کی خریداری کے لیے ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کے معاہدوں کی منظوری دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مختلف کمپنیوں سے بات چیت جاری ہے اور اس ویکسین کی خریداری کا آغاز فروری کے آخر میں شروع کردیا جائے گا۔

قبل ازیں سینیٹر عائشہ فاروق نے سوال اٹھایا تھا کہ ویکسین کے لیے کس کو ترجیح دی جائے، انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ نجی کمپنیاں یہ ویکسین لیں گی جو امیر اور با اثر افراد تک پہنچائیں گی اور غریب عوام کو مشکل میں چھوڑ دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹرز، عملے کیلئے کورونا ویکسین کی 2 لاکھ خوراکوں کا آرڈر دے دیا ہے، سلیم مانڈوی والا

انہوں نے حکومت پر یہ بھی الزام لگایا کہ اس اہم معاملے پر پارلیمنٹ کو اندھیرے میں رکھا جارہا ہے اور انہوں نے حکومت سے حفاظتی ویکسین کی خریداری کی پالیسی کی وضاحت کرنے کو کہا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بعد ازاں اس معاملے کو متعلقہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا اور تجویز پیش کی کہ قومی صحت سروسز کے بارے میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان کو بھی اجلاس میں شرکت کرنا چاہیے۔

توجہ دلانے کے ایک اور نوٹس کے جواب میں وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ 200 اساتذہ، جو ڈیپوٹیشن پر تھے، کی واپسی قانون کے مطابق اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ جو اساتذہ ڈیپوٹیشن پر 5 سال سے زیادہ مدت سے ہیں اور انہیں واپس نہ بلایا گیا تو وہ حکم جس کے خلاف اساتذہ نے پہلے ہی اپیل دائر کررکھی ہے وہ عملاً غلط ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن (ایف ڈی ای) سے ان اساتذہ کی واپسی کے لیے متعلقہ صوبائی محکمہ تعلیم نے متعدد مرتبہ رابطے کیے ہیں۔

ایک خط کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت کو صوبے میں اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اساتذہ کے مسائل سے پوری طرح واقف ہے اور انہیں قانون اور آئین کے مطابق سہولت فراہم کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ڈیپوٹیشن پر کام کرنے والے اور 5 سالہ مدت پوری ہونے پر واپسی کا سامنا کرنے والے اساتذہ کو ریلیف فراہم کرنا چاہتی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں کورونا ویکسین لگانے کا آغاز آئندہ ہفتے سے ہوگا، اسد عمر

وزیر نے کہا کہ پیرنٹ محکموں سے این او سی لانے والوں کو واپس نہیں کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اساتذہ کے پیرنٹ صوبائی محکموں سے این او سی لاتے ہیں تو حکومت کو اساتذہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

علی محمد خان نے بتایا کہ بیشتر اساتذہ، مرد اور خواتین، صوبائی محکموں سے ایف ڈی ای میں ڈیپوٹیشن پر آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں گزشتہ کئی سالوں سے کام کرنے والے اساتذہ کی پانچ سالہ ڈیپوٹیشن مکمل ہونے کے بعد بھی واپسی کے لیے 2019 میں ایکشن لیا گیا تھا۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اساتذہ کی ڈیپوٹیشن پر واپسی سے اہلخانہ تقسیم ہوں گے کیونکہ وہ کئی سالوں سے اسلام آباد میں کام کررہے ہیں اور یہ ویڈ لاک پالیسی کے خلاف ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں