اپوزیشن کو ارکان اسمبلی کی گرفتاری سے قبل تحقیقات کا مجوزہ بل پیش کرنے سے روک دیا گیا

اپ ڈیٹ 03 فروری 2021
یہ بل مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے سید جاوید حسنین نے پیش کیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی
یہ بل مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے سید جاوید حسنین نے پیش کیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے حکومت کی سخت مخالفت کے بعد کسی تحقیقاتی یا قانون نافذ کرنے والی ایجنسی کی جانب سے پارلیمنٹ کے رکن کی گرفتاری سے قبل ان کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق آئینی ترمیمی بل پیش کرنے سے روک دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئین کے آرٹیکل 66 میں ترمیم کا بل جو 'اراکین کی مراعات' سے متعلق ہے، سرگودھا سے تعلق رکھنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے سید جاوید حسنین نے پیش کیا تھا اور اس کی حمایت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سمیت حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں نے بھی کی تھی۔

بل کے تعارف کے لیے وائس ووٹ کی تحریک پیش کرنے کے بعد، ڈپٹی اسپیکر نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس بل کو متعارف کرانے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں، جس پر اپوزیشن ارکان نے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا اور ووٹوں کی گنتی کا مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: بدقسمتی سے قومی اسمبلی کا اسپیکر فریق بن گیا ہے، شاہد خاقان

تاہم اپوزیشن کے اس مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے قاسم سوری نے نمازِ مغرب کے بعد تک کارروائی میں وقفے کا اعلان کیا تھا جبکہ اپوزیشن اراکین احتجاج کررہے تھے۔

وقفے کے بعد جب ایوان میں دوبارہ کارروائی شروع ہوئی تو اپوزیشن ارکان نے ایک مرتبہ پھر ڈپٹی اسپیکر کے اس فیصلے پر احتجاج کیا اور دوبارہ ووٹ ڈالنے کے لیے بل پیش کرنے کو کہا لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔

اپنے بل کی حمایت میں بحث کرتے ہوئے سید جاوید حسنین نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ ایک اعلیٰ ادارہ ہے تو اس کے اراکین کا احترام کرنا چاہیے اور ان کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی جج یا پاک فوج کے ملازم کو گرفتار نہیں کرسکتا، انہوں نے کہا کہ دوسری جانب اداروں نے الزامات کی تحقیقات کے بغیر سیاستدانوں کو اپنی مرضی سے گرفتار کیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکنِ قومی اسمبلی نے کہا کہ آئین کے مطابق، پارلیمنٹ ملک میں سب سے اعلیٰ ادارہ ہے اور اس کے اراکین نے پاکستان کے 22 کروڑ افراد کی نمائندگی کی لیکن جب بھی کوئی ادارہ چاہتا تو وہ انکوائری اور تفتیش کے بہانے پارلیمنٹ کے اراکین کو گرفتار کرکے ان کی تذلیل کرتا۔

سید جاوید حسنین نے اس بل کو پڑھتے ہوئے کہا کہ 'اگر پارلیمنٹ کا کوئی رکن کسی ادارے/ محکمہ کو کسی کیس کے سلسلے میں گرفتاری، تفتیش یا انکوائری کے لیے مطلوب ہے تو متعلقہ ادارہ / محکمہ اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کو تحریری طور پر مطلع کرے گا'۔

بل میں کہا گیا کہ 'اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ اس معاملے کو پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کریں گے جو اس معاملے کی تحقیقات اور انکوائری کرے گی اور فیصلہ کرے گی کہ مطلوبہ رکن کو، اس ادارے/ محکمے کے حوالے کرنا مناسب ہے یا نہیں'۔

بل کے ابتدائی مسودے جس کی کاپی ڈان کے پاس دستیاب ہے، میں کہا گیا کہ 'قومی اسمبلی اور سینیٹ کی مذکورہ کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کی نمائندگی کرنے والے اراکین کی تعداد برابر ہوگی اور یہ کمیٹیاں اپنے اپنے ایوانوں کے اراکین کے معاملات کی تفتیش اور انکوائری کریں گی۔

اس بل میں کہا گیا کہ اداروں نے قانون سازوں کو گرفتار کیا اور پھر انہیں بلیک میل کرکے اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسپیکر قومی اسمبلی کو اپوزیشن اراکین کے استعفے فوری منظور کرنے کی ہدایت

بل کے مسودے کے مطابق طویل عرصہ گزر جانے کے بعد وہ بے قصور قرار دیئے گئے ہیں، ایسے تمام حالات میں پارلیمنٹ کی بدنامی ہوتی ہے لہذا پارلیمنٹ کو حقیقی معنوں میں اپنے اراکین کو تحفظ اور احترام دینا انتہائی ضروری ہے۔

اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی سیکریٹری برائے قانون و انصاف ملیکا بخاری نے کہا کہ حکومت، قانون سے ماورا کمیٹی کے قیام کی اجازت نہیں دے گی اور سیاستدانوں کو گرفتار کرنے کے اختیارات اداروں کے پاس رہنے چاہئیں۔

پی پی پی کے سید نوید قمر نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ فوج اور عدلیہ دونوں کے اپنے اندرونی تحقیقاتی نظام موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے پارلیمنٹ نے ایسا نہیں کیا۔

علاوہ ازیں حکومت نے ہچکچاتے ہوئے آزاد ایم این اے محسن داوڑ کے ذریعے آئین میں ترمیمی بل پیش کرنے کی اجازت دی جس میں سابقہ وفاقی زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے باوجود سینیٹ میں فاٹا کی 8 نشستیں برقرار رکھنے کی سفارش کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں