بدقسمتی سے قومی اسمبلی کا اسپیکر فریق بن گیا ہے، شاہد خاقان

اپ ڈیٹ 29 جنوری 2021
مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی اسلام آباد میں احسن اقبال اور مریم اورنگزیب کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی اسلام آباد میں احسن اقبال اور مریم اورنگزیب کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو جانبدار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک کی قومی اسمبلی کا اسپیکر بھی فریق بن گیا ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے نوٹیفکیشن جاری کیا ہے کہ وہاں آپ پریس سے بات نہیں کر سکتے تو پاکستان کے منتخب نمائندے وہ سڑکوں پر پاکستان کے عوام سے بات کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسپیکر قومی اسمبلی کو اپوزیشن اراکین کے استعفے فوری منظور کرنے کی ہدایت

ان کا کہنا تھا کہ آپ کے سامنے کئی دنوں سے اسلام آباد کی ٹیچرز بیٹھی ہیں، اس سے پہلے لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی بیٹھے تھے تو آج اپوزیشن بھی سڑکوں پر ہی آپ سے بات کررہی ہے کیونکہ نہ ایوان چلتا ہے، نہ ایوان کی روایات کی کسی کو پروا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج ہم نے اسمبلی میں دو ایشوز پر بات کرنی تھی، ایک بجلی نرخ میں جو اضافہ ہو رہا ہے اور تواتر ہوتا جا رہا ہے، اس پر حکومتی وزرا حکومت کے اندر اور حکومت کے باہر جھوٹ بولتے رہے ہیں، ان کو عوام کے سامنے رکھنا تھا، دوسری ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ ہے جو حکومت کی کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ لاہور سے منتخب قومی اسمبلی کے رکن کھوکھر صاحب کے گھر کو مسمار کیا گیا، یہ کھوکھر صاحب کو دبانے اور اسمبلی سے دور رکھنے کے ہتھکنڈے ہیں تاکہ وہ اس پارٹی کا ساتھ نہ دے سکیں اور عوام کی نمائندگی نہ کر سکیں، اتنے اوچھے ہتھکنڈے پاکستان کی تاریخ میں کسی حکومت نے استعمال نہیں کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی رکن اسمبلی کا گھر مسمار نہیں کیا گیا لیکن آج ہم اس حد تک بھی جا چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس: اسپیکر قومی اسمبلی کی اوپن بیلٹ کی حمایت

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آج کھوکھر صاحب نے تحریک پیش کی تھی کہ مجھے اسمبلی کے اجلاس میں اپنی نمائندگی کرنے سے روکنے کے لیے یہ کام کیا جاتا ہے، وہاں اسپیکر نے جب حکومت کے وزرا کو اجازت دی تو انہوں نے اسمبلی کے رولز کے مطابق اسمبلی کی کمیٹی میں بھیجنا چاہیے یا نہیں، انہوں نے کھوکھر صاحب پر طرح طرح کے الزامات لگانے شروع کردیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کچھ دیر سنا، اسپیکر صاحب سے گزارش کی کہ ان کو بولیں کہ کیا اس پر اسمبلی میں بحث ہو سکتی ہے یا نہیں، کمیٹی میں بھیجا جا سکتا ہے یا نہیں لیکن وزیر صاحب بھی اپنے گھٹیا الزامات بھی بدستور قائم رہے اور اسپیکر صاحب بھی عوام کے معاملات اور اسمبلی کے حق کا دفاع نہ کر سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ بدستور قائم ہے اور اسپیکر بدقسمتی سے فیصلہ نہ کر سکے کہ کیا اس معاملے کو قومی اسمبلی کی تحریک استحقاق زیر غور لا سکتی ہے، اگر حکومت کی جانب سے گرائے گئے رکن قومی اسمبلی کے گھر کو قومی اسمبلی کی استحقاق کمیٹی نہیں دیکھ سکتی تو پھر کیا دیکھے گی۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر صاحب کا جو فیصلہ آئے گا ہمیں اس فیصلے کا علم ہے، ڈھائی سال سے معاملات دیکھنے کے بعد ہمیں پورا یقین ہے کہ ان کے اندر ہمت نہیں ہے کہ وہ اس اسمبلی کو استحقاق کمیٹی میں بھیج دیں جہاں اس وزیر کے لگائے گئے الزامات بھی شامل ہوں، ہم تو چاہتے ہیں کہ یہ وزیر کیمرے کے سامنے آ کر بتائیں کہ کھوکھر صاحب نے قبضہ کیا یا نہیں کیا اور کھوکھر صاحب اپنا جواب دیں گے۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کے اراکین کے استعفے جعلی ہیں، کارروائی کی ضرورت نہیں، اسپیکر

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت ان اوچھے ہتھکنڈوں سے اسمبلی کے اراکین کو دبانا چاہتی ہے، جب سینیٹ کے الیکشن نزدیک ہوں، ملکی معاملات کی بات، جب دلیل نہ رہے تو حکومت ان اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک کی قومی اسمبلی کا اسپیکر بھی فریق بن گیا ہے، وہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی میں جاتا ہے، اس کی غیرجانبداری پر انگلیاں اٹھتی ہیں اور جانبداری کے ثبوت ہیں، ایسے معاملات میں اسمبلی کہاں چلے گی اور عوام کے معاملات کب زیر بحث آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی مفلوج ہو چکی ہے، پچھلے جمعے کو اجلاس شروع ہوا اور آج اسے پیر تک ملتوی کردیا گیا ہے، 10 دنوں میں 5 گھنٹے اجلاس کی کارروائی ہوئی ہے لیکن دن دس گنے جائیں گے، ان 10 دنوں میں پاکستان کے عوام کی بات اس اسمبلی کارروائی میں نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ایک ترمیمی بل جسے کمیٹی نے 22 منٹ میں پاس کیا، آج ہمارے احتجاج کے دوران اسپیکر صاحب نے پانچ سیکنڈ میں اسے ایوان میں 'lay' کردیا، یہ آئین میں ترمیم کرنے جا رہے ہیں اور ترمیم کیا ہے کہ ان کے جو وزیر دوہری شہریت رکھتے ہیں ان کو این آر او دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق ریفرنس پر چیئرمین سینیٹ، اسپیکر اسمبلیز، الیکشن کمیشن کو نوٹس

اس موقع پر احسن اقبال نے کہا کہ اس ملک میں ایک فائل کھل گئی تھی 'پراجیکٹ عمران خان'، وہ پراجیکٹ فیل ہو گیا ہے، اس کی ناکامی کے ساتھ ملک اور ریاست بھی ڈوب رہی ہے، اب جب تیسرے سال میں ان سے حکومت نہیں چل رہی تو ایک بیانیہ یہ حکومت مسلسل تکرار کے ساتھ اپنے ترجمانوں کے ذریعے ملک میں پھیلا رہی ہے کہ عمران احمد نیازی کے علاوہ اس ملک میں سب سکے سب لوگ چور، قبضہ گروپ اور غدار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی وزرا اور وزیر اعظم نے ہمیں کہا کہ جب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا اردو ترجمہ آئے گا تو آپ کو پتا لگے گا کہ یہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا ڈیٹا ہے جبکہ رپورٹ کی بہت سادہ انگریزی میں یہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اس رپورٹ کا ڈیٹا 2019-2020 کے پی ٹی آئی کے 2 سالوں کا ہے، تو آپ نے ہمیں یہ بھی بتادیا کہ وزیر اعظم اور ان کے وزیر سادہ انگریزی بھی نہیں پڑھ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ اب جو اردو کا ترجمہ یہ کروانا چاہتے ہیں، اس کے لیے بھی جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں کوئی کمیشن نہ بنا دیں، میں یہ بات دہراؤں گا کہ پاکستان کی بار کونسل اور وکلا برادری نے جسٹس عظمت سعید پر براڈشٹ کمیشن کے لیے عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ بہت قابل ہوں، ہمیں ان سے ذاتی دشمنی نہیں ہے لیکن اس پورے معاملے میں ایک فریق ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہمارا مقصد حکومت گرانا نہیں تھا، ہمارا مقصد نظام کی تبدیلی ہے اور اس حکومت کے ہوتے ہوئے پاکستان ترقی نہیں کر سکتا، یہ پی ڈی ایم کا منشور ہے اور یہ واحد نکاتی بیانیہ ہے جس پر پی ڈی ایم آج بھی قائم ہے۔

مزید پڑھیں: لیگی اراکین قومی اسمبلی نے اپنے استعفوں کی تصدیق سے انکار کردیا، اسد قیصر

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم میں کوئی انتشار نہیں ہے، پی ڈی ایم میں 11 جماعتیں ہیں، اختلاف رائے ہمیشہ رہتا ہے، مشاورت رہتی ہے، ایک بات پر اتفاق ہوتا اور اسی پر پی ڈی ایم عملدرآمد کرتی ہے، جو اس پر عمل نہیں کرے گا وہ پی ڈی ایم سے خارج ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات اور آئین میں ترمیم کا ایک طریقہ ہوتا ہے، دونوں ایوانوں کی ایک کمیٹی بنتی ہے جس میں ہر جماعت شریک ہوتی ہے، ہم نے جب انتخابی اصلاحات کی تھیں تو 107 اجلاس ہوئے تھے اور سب کی مشاورت سے ہوا تھا۔

انہوں نے حکمران جماعت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج اگر آپ کو اپنے اراکین پر شبہ ہے تو شو آف ہینڈز کا آپ کو بہت دیر سے خیال آیا، اگر سینیٹ کا رکن شو آف ہینڈز سے منتخب ہو گا تو قومی اسمبلی کا رکن بھی شو آف ہینڈز سے منتخب ہو گا، ووٹ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اسے خفیہ رکھنا ہوتا ہے تاکہ میں جس کو ووٹ دوں وہ میرے حق میں اپنے حقوق غلط استعمال نہ کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں