نمونیا کووڈ کے مریضوں میں موت کا خطرہ بڑھانے والی دوسری بڑی وجہ

اپ ڈیٹ 07 فروری 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

ماضی میں نمونیا کی تاریخ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے ہلاکت کا خطرہ بڑھانے والا دوسرا بڑا عنصر ہوسکتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

ہارورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ عمر کے بعد نمونیا کووڈ کے مریضوں میں ہلاکت کا باعث بننے والا دوسرا بڑا عنصر ہے، جس کے بعد ذیابیطس ٹائپ ٹو، ہارٹ فیلئر اور گردوں کے امراض دیگر عناصر ہیں۔

اس تحقیق میں مارچ سے نومبر 202 کے دوران امریکا کے 17 ہزار کووڈ مریضوں کے طبی ریکارڈ کا تجزیہ کیا گیا۔

طبی جریدے جرنل این پی جے ڈیجیٹل میڈیسین میں شائع تحقیق کے لیے محققین نے ڈیٹا کو استعمال کرکے ایک ماڈل تیار کیا جو کووڈ کے مریضوں کی حالت کی پیشگوئی کرسکتا ہے۔

اس ماڈل کو ماضی کے طبی ریکارڈز کو استعمال کرکے کووڈ سے موت کے امکان کی پیشگوئی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ کم اور زیادہ خطرے سے دوچار مریضوں کی نشاندہی بہت زیادہ اہم ہوسکتی ہے کیونکہ اس وقت وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکا میں ویکسینیشن کے لیے عمر، پیشے اور رہائش کے ماحول جیسے عناصر پر انحصار کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ویکسینیشن کے لیے زیادہ خطرے سے دوچار افراد کو ترجیح دے کر ہزاروں زندگیاں بچاسکتے ہیں۔

تحقیق میں مختلف عناصر کو مدنظر رکھ کر دریافت کیا گیا کہ نمونیا کی تاریخ کووڈ سے اموات کا خطرہ بڑھانے والی دوسری بڑی وجہ ہے۔

تحقیق کے مطابق نمونیا کی تاریخ رکھنے والے مریضوں میں دیگر افراد کے مقابلے میں کورونا وائرس سے موت کا خطرہ لگ بھگ 4 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ نمونیا کو پھیپھڑوں کے دائمی مسئلے کے ایک اشارے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کرکے نمونیا اور کووڈ 19 کے نتیجے کے درمیان تعلق پر جانچ پڑتال کی جائے گی۔

اسی طرح 85 سال یا اس سے زائد عمر کے کووڈ 19 کے مریضوں میں جوان افراد کے مقابلے میں کووڈ سے موت کا خطرہ 8 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

45 سے 65 سال کی عمر کے مریضوں میں ذیابیطس کی پیچیدگیاں اور کینسر موت کا خطرہ بڑھانے والے اہم عناصر ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ ان کے تیار کردہ ماڈل سے ماہرین کو ان افراد میں کووڈ کے نتیجے کی پیشگوئی میں مدد مل سکے گی جو ابھی اس بیماری کا شکار نہیں ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں