کورونا وائرس نے مدافعتی نظام کو شکست دینے کیلئے خود کو بدلنا کیسے سیکھا؟

05 فروری 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

نئے کورونا وائرس (سارس کوو 2) انسانی جسم کے اندر جاکر اپنے اسپائیک پروٹینز (اس کے باہری حصے میں کانٹوں جیسے حصے) کو استعمال کرکے خلیات میں داخل ہوتا ہے اور اپنی نقول بنانا شروع کردیتا ہے۔

درحقیقت کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین والے حصے اس اس کی تمام تصاویر میں وہ نمایاں بھی ہوتے ہیں۔

مگر اب سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ اس وائرس نے اپنے جینیاتی سیکونس کے معمولی حصوں کو ڈیلیٹ کرکے اسپائیک پروٹینز کی ساخت کو بدلا ہے۔

یہ انکشاف امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا ہے۔

پٹسبرگ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جینیاتی سیکونس کے ان حصوں میں ایسا ہوا ہے جو اسپائیک پروٹین کی ساخت کا باعث بنتے ہیں۔

آسان الفاظ میں وائرس نے اپنے اسپائیک پروٹینز کی ساخت کو ایسا بدلا ہے کہ وہ ہمارے مدافعتی نظام کو بے بس کردے اور اس کا نتیجہ اس کی نئی اقسام کی شکل میں نکلا۔

سیکونس کے ان حصوں میں ڈیلیٹیشن کے نتیجے میں اسے ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز اب اسے جکڑنے سے قاصر ہوجاتی ہیں، اس عمل کے نتیجے میں جو تبدیلیاں آئئیں وہ نئی اقسام کے جینیاتی مواد میں تبدیل ہوگئیں۔

اس تحقیق کے ابتدائی نتائج نومبر 2020 میں پری پرنٹ سرور میں شائع تھے اور اس وقت سے محققین کی جانب سے وائرس میں آنے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کررہے ہیں، جس دوران دنیا میں اس کی نئی اقسام ابھر کر سامنے آئی ہیں۔

سب سے پہلے برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں اس وائرس کی نئی اقسام کو دیکھا گیا جن کے جینیاتی سیکونس میں ڈیلیٹیشن کے عمل کو دیکھا گیا۔

محققین نے اینٹی باڈیزز کے خلاف مزاحمت کرنے والی تبدیلیوں کا سب سے پہلا مشاہدہ ایک کمزور مدافعتی نظام رکھنے والے مریض میں کیا تھا، جو کووڈ 19 کا 74 دن تک شکار رہ کر ہلاک ہوگیا تھا۔

اس طویل وقت کے دوران وائرس اور مدافعتی نظام کے درمیان چوہے بلی کا کھیل جاری رہا اور وائرس کو موقع ملا جس سے جینیاتی تبدیلیوں کا عمل تیز ہو اور وائرل جینوم میں ایسی میوٹیشنز ہوئیں جو دنیا کے لیے باعث تشویش بن گئیں۔

یعنی کسی مریض میں اس وائرس کی طویل عرصے تک موجودگی اس میں تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے اور ایک نئی قسم دریافت ہوسکتی ہے۔

محققین نے اس تحقیق کے دوران وبا کے آغاز سے اب تک بنائے گئے جینیاتی سیکونسز کے ڈیٹابیس کی جانچ پڑتال کی۔

اس تحقیق کا آغاز 2020 کے موسم گرما کے دوران ہوا تھا اور ان کا خیال تھا کہ یہ نیا وارئس جینیاتی طور پر زیادہ مستحکم ہے۔

مگر جیسے جیسے تحقیقی ٹیم نے ڈیٹا بیس کی جانچ پڑتال کی، انہوں نے زیادہ ڈیلیٹیشن کو دریافت کیا اور ایک پیٹرن ان کی نظر میں ابھرنے لگا۔

یہ عمل تمام سیکونسز میں یکساں حصوں میں ہورہا تھا، وہ حصے جن کی ساخت میں تبدیلی سے وائرس کی خلیات پر حملہ آور ہونے اور اپنی نقول بنانے کی صلاحیت متاثر نہیں ہوتی۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس پیٹرن کو دیکھ کر ہم پیشگوئی کرسکتے ہیں، اگر ایسا چند بار ہوا ہے تو ایسا مستقبل میں بھی ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق کے دوران ہی اکتوبر میں محققین نے کورونا کی نئی برطانوی قسم یا بی 1.1.7 کو بھی دیکھا تھا، جو اس وقت منظرعام پر نہیں آیا تھا، بلکہ اس کا کوئی نام بھی نہیں تھا، مگر اس کا جینیاتی سیکونس ڈیٹا سیٹس میں موجود تھا۔

اس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس میں آنے والی جینیاتی تبدیلیاں کتنی اہم ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ متعدد مختلف طریقوں سے وائرس کے پیچھے جاکر ہی ہم اس کی ساخت کی تبدیلی کو شکست دے سکتے ہیں، مختلف اینٹی باڈیز کا امتزاج، نانوباڈیز کا امتزاج، مختلف اقسام کی ویکسینز سے، اگر کوئی بحران ہووتا ہے تو ہمیں ان بیک اپ کے بارے میں علم ہونا چاہیے۔

اگرچہ تحقیق میں بتایا گیا کہ کس طرح یہ نیا وائرس ممکنہ طور پر موجودہ ویکسینز اور علاج سے بچنے کی کوشش کرسکتا ہے، تاہم یہ جاننا ناممکن ہے کہ ایسا کب تک ہوگا۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں