ماضی میں اربابِ اختیار نے کہا نیب بند کردو، جس کا فائدہ اشرافیہ کو ہے، جسٹس (ر) جاوید اقبال

اپ ڈیٹ 15 فروری 2021
نیب چیئرمین نے پشاور میں تاجروں سے خطاب کیا-فوٹو: ڈان نیوز
نیب چیئرمین نے پشاور میں تاجروں سے خطاب کیا-فوٹو: ڈان نیوز

قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ماضی کے بڑے اربابِ اختیار نے نیب کو بند کرنے کی بات کی کیونکہ نیب بند کرنے سے اشرافیہ کو فائدہ ہے۔

پشاور میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے کہا کہ مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ریفرنسز میں 943 ارب روپے منسلک ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ تھا کہ ریفرنسز زیادہ تھے اور عدالتوں کی تعداد کم تھی جس کی وجہ سے کیسز کی باری آنے میں مہینوں لگ جاتے تھے، فرد جرم عائد ہونے میں 6،6 مہینے لگ جاتے تھے۔

مزید پڑھیں: ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا نیب سے متعلق حقائق ایوان بالا میں پیش کرنے کا اعلان

انہوں نے کہا کہ میں بطور چیئرمین اور نیب بھی چیف جسٹس کے مشکور ہیں کہ انہوں اس شکایت کا نہ صرف ازالہ کیا بلکہ انہوں نے حکم دیا کہ 100 کے قریب نئی عدالتیں بنیں اور نیب ریفرنس کا فیصلہ بھی جلد ہوجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹھیک ہے کہ لاپروائی ہوئی ہے، روزانہ سماعت نہیں ہوتی جو عملی طور پر ممکن نہیں ہے کیونکہ میں خود 11 سال سیشن جج رہا ہوں اس لیے مجھے پتا ہے کہ 25 سے 30 کیسز کو عملی طور پر دیکھنا ممکن نہیں ہوتا اور وائٹ کالر کیسز بہت مشکل ہیں۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب کے خلاف ہمیشہ سے مذموم پروپیگنڈا بھی رہا، الزامات بھی لگتے رہے اور دشنام طرازی بھی ہوتی رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر انسانوں کے ہاتھ میں ہوتا تو شاید نیب کا آب ودانہ بھی بند کردیتے، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا کہ کوئی ان سے بھی پوچھ سکتا ہے لیکن نیب نے نہ صرف ان سے پوچھا بلکہ اس لمحے تک 487 ارب روپے تک ریکوری بھی کرلیا۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنے تین سال کے دور کی بات کر رہا ہوں، 487 ارب روپے کی ریکوری میں لاہور، راولپنڈی اور نیب خیبر پختونخوا سب کا حصہ ہے اور اس ریکوری میں چیئرمین سے لے کر پوری ٹیم کی کاوش ہے۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ حال ہی میں لاہور میں دو سال کے اندر ایک ہاؤسنگ اسکیم سے ڈھائی ارب روپے ریکور کیے اور متاثرین میں تقسیم کر دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی اور کریڈٹ ملے یا نہ ملے لیکن نیب کی وجہ سے غریبوں، بیواؤں، یتیموں کی ساری عمر کی کمائی جب ان کے ہاتھ میں دوبارہ آئی تو ان کے چہرے میں جو خوشی تھی اسی لمحے نیب کی ساری محنت پوری ہو گئی ہے اور ان لوگوں کی دعائیں ہیں جس کی وجہ سے نیب قائم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بڑے ارباب اختیار نے کہا کہ نیب بند کردیں، نیب کو اس لیے بند کردیا جائے کہ آپ سے پوچھا ہے کہ اربوں روپے کہاں سے لیے، ایک ریڑھی والا، فالودے والا، ایک پکوڑے اور گنڈیری والے کے اکاؤنٹ سے اربوں روپے برآمد ہوتے ہیں تو آخر کسی نے تو دیے ہیں۔

نیب مقدمات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب کسی سے پوچھا تو ان کا پہلا جواب تھا کہ نیب کی انتقامی کارروائی ہے، نیب کی کیا انتقامی کارروائی ہوسکتی ہے؟ میں تو 90 فیصد لوگوں سے واقف نہیں ہوں، اس لیے ذاتی انتقام کا کبھی سوال پیدا ہوا اور نہ کبھی ذاتی انتقام کا شائبہ ہے، اس کی بات ہی بھول جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے آج تک پتا نہیں ہے کہ سیاسی وابستگی کہتے کس کو ہیں، میری ذاتی اور نیب کی دلچسپی ہے تو صرف اور صرف پاکستان سے ہے، کئی مواقع پر کہہ چکا ہوں کہ نیب کو بند کرنے کا فائدہ اشرافیہ کو ہے۔

مزید پڑھیں: سنگین الزامات کے بعد سلیم مانڈوی والا کی چیئرمین نیب سے ملاقات

انہوں نے کہا کہ نیب کو بند کرنے کا فائدہ ان ارب پتی لوگوں کو ہے جو کھرب پتی بننے کا خواب دیکھ رہے تھے اور اتفاق سے نیب کی وجہ سے وہ خواب پورے نہیں ہوئے اور اس بات پر ان کو دکھ ہوا اور صدمہ بھی ہوا کہ پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ موجود ہے جو پوچھ سکے کہ یہ کھربوں اور اربوں ڈالر کہاں سے آئے۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو 1980 اور 1990 میں 70 سی سی ہنڈا پر آتے تھے اور آج بھی تصاویر موجود ہیں جبکہ اس وقت ان کے دبئی میں ٹاور، پلازے اور فارم ہاؤسز ہیں تو کیا ان سے پوچھا نہیں جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ ان لوگوں سے پوچھا کہ آپ نے ملک کی دولت اور معیشت کو کس طرح بے تحاشا برباد کیا۔

انہوں نے کہا کہ نیب، ملک کی معیشت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی کیونکہ معاشی پالیسی نیب نہیں بناتا لیکن چند لوگوں نے چائے کی پیالی میں طوفان لانے کی کوشش کی کہ نیب کی وجہ سے درجنوں کاروباری حضرات نے ہجرت کی۔

جاوید اقبال نے کہا کہ چند لوگ اس لیے گئے کیونکہ گیس، بجلی، مہنگی تھی اور لا اینڈ آرڈر بہتر نہیں تھی اور نیب کی وجہ سے کوئی باہر نہیں گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کاروباری اور ڈکیت میں فرق ہے، جس نے ڈھائی ارب روپے کی ڈکیتی کی وہ کاروبار نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں