ترقیاتی فنڈز نوٹس کی سماعت کیلئے چیف جسٹس نے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا

09 فروری 2021
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم کی جانب سے اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کے معاملے پر جسٹس قاضی فائز عیسی کے لیے گئے نوٹس کی سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا ہے جس میں جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔

سپریم کورٹ میں کیس کو سماعت کے لیے بھی مقرر کیا جاچکا ہے اور بینچ 10 فروری کو دوپہر ایک بجے سماعت کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ نے وزیراعظم کے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کا نوٹس لے لیا

کیس میں کابینہ سیکریٹری کے ذریعے وفاقی حکومت، وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری، سیکریٹری وزارت خزانہ، چیف سیکریٹریز کے ذریعے تمام صوبائی حکومتوں اور محکمہ خزانہ کے سیکریٹریوں کو نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں۔

علاوہ ازیں اٹارنی جنرل پاکستان اور پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کر کے ان سے جواب طلب کیا گیا۔

خیال رہے کہ 3 فروری کو سپریم کورٹ نے وزیراعظم کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے ہر رکن اسمبلی کو 50 کروڑ روپے کی ترقیاتی گرانٹ دینے کی میڈیا رپورٹس کا نوٹس لیا تھا۔

مذکورہ نوٹس کو 10 فروری کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا تا کہ فیصلہ کیا جاسکے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت سے جواب لینے کے بعد اسے جاری رکھا جائے یا ختم کردیا جائے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا ہر رکن قومی و صوبائی اسمبلی کیلئے 50 کروڑ روپے کی ترقیاتی گرانٹ کا اعلان

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مقبول باقر کی 2 رکنی بینچ نے 4 صفحات پر مشتمل حکم نامہ لکھا تھا جس میں آئین کی دفعہ 5(2) جو بتاتی ہے کہ آئین اور قانون کی اطاعت ہر شہری کی ناقابل قبول ذمہ داری ہے اور دفعہ 204(2) جو سپریم کورٹ کو عدالتی حکم کی پاسداری نہ کرنے والے شخص کو سزا دینے کا اختیار دیتی ہے، کا حوالہ دیا گیا تھا۔

مزید یہ کہ ججز کے عہدے کے لیے اٹھایا گیا حلف بھی انہیں آئین کے تحفظ اور اس کے دفاع کی ذمہ داری سونپتا ہے۔

اس کیس کے ابتدائی حکم نامے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ قومی اخبارات بشمول معتبر روزنامے ڈان میں 28 جنوری 2021 کو 'ہر قانون ساز کیلئے 50 کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری' کی ہیڈ لائن کے تحت یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں جس میں ایک وزیر کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم نے رکن قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے 50 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ وہ اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کرواسکیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم بتائیں نجی تقریب کیلئے سرکاری املاک کیوں استعمال کیں، جسٹس عیسیٰ

اسی طرح یکم فروری کو اسی اخبار نے 'ترقیاتی فنڈز کے عنوان سے ایک اداریہ لکھا جس میں وزیراعظم کی جانب سے اپنی پارٹی کے ہر رکن قومی و صوبائی اسمبلی کو ان کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے نصف ارب روپے دینے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔

سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا کہ بظاہر اس خبر یا اس کے بعد چھپنے والے ادارتی تبصرے کی حکومت یا وزیراعظم کی جانب سے تردید نہیں کی گئی۔

حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز ضمنی گرانٹس کے ذریعے جاری کیے جاسکتے ہیں لیکن اس کے لیے آئین کی دفعہ 80 سے 84 میں طریقہ کار بتایا گیا جس کے قواعد و ضوابط پر عمل کرنا پڑتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں