کراچی: بلدیہ ٹاؤن میں فیکٹری میں آگ لگنے سے 3 مزدور جاں بحق

اپ ڈیٹ 10 فروری 2021
ایک مزدور اپنے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش کے دوران جاں بحق ہوا—فوٹو: ڈان نیوز
ایک مزدور اپنے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش کے دوران جاں بحق ہوا—فوٹو: ڈان نیوز

کراچی کے علاقےبلدیہ ٹاؤن میں 'جیل' جیسی ایک فیکٹری میں آگ لگنے سے تین مزدور جاں بحق ہوگئے۔

انتظامیہ اور عینی شاہدین کے مطابق ایک مزدور دیگر مزدوروں کو بچانے کی کوشش کے دوران جاں بحق ہوا۔

فیکٹری کی انتظامیہ نے جانی نقصان کی ذمہ داری فائر بریگیڈ پر ڈالتے ہوئے کہا کہ فائربریگیڈ تاخیر سے پہنچی جبکہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے فائر چیف اور پولیس کا ماننا ہے کہ فیکٹری میں کے حادثے کی وجہ سے مالک کی 'مجرمانہ غفلت' ہے کیونکہ انہوں نے فیکٹری کو ایک 'جیل' کی طرح تعمیر کیا تھا'۔

مزید پڑھیں: 8سال بعد بلدیہ فیکٹری سانحے کا فیصلہ آج سنائے جانے کا امکان

ان کا کہنا تھا کہ فیکٹری میں ہنگامی طور پر باہر نکلنے کا راستہ نہیں رکھا گیا تھا۔

المکہ فیبرکس میں کام کرنے والے افراد نے صحافیوں کو بتایا کہ گراؤنڈ فلور پر لگنے والی آگ نے تیزی سے تین منزلہ عمارت کو لپیٹ میں لیا۔

ایک مزدور نے دعویٰ کیا کہ آگ منگل کی رات کو 11 بجے لگی تھی اور فیکٹری کے مالک نے ساڑھے گیارہ بجے فائربریگیڈ کو اطلاع دی لیکن فائر ٹینڈرایک بجے جائے وقوع پر پہنچے۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے فیکٹری کے مالک عمران نے کہا کہ فائر بریگیڈ وقت پر پہنچتا تو جانی نقصان سے بچا جاسکتا تھا، انہوں نے اعتراف کیا کہ عمارت کو چوروں سے بچانے کے لیے بند رکھا گیا تھا۔

دوسری جانب چیف فائر افسر مبین احمد نے تاخیر سے پہنچنے کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عمارت میں ہنگامی اخراج کے لیے راستہ نہیں تھا۔

مدینہ کالونی کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) سلیم رند نے بھی فائر بریگیڈ کے مؤقف کی تائید کی۔

انہوں نے کہا کہ گراؤنڈ فلور کے علاوہ تین منزلہ عمارت 600 مربع گز پر پھیلی ہوئی تھی اور 'جیل' کی طرح نظر آتی تھی، جس کی دیواریں اونچی تھیں اور صرف ایک دروازہ تھا۔

ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ یہاں تک کھڑکیوں کو بھی گرل سے بند کیا گیا تھا اور اتنی جگہ بھی نہیں تھی کوئی چڑیا بھی پر مارے۔

مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری: 7 سال بعد زمینی حقائق اب بھی وہی ہیں

ان کا کہنا تھا کہ اگر گرل کو توڑ بھی دیا جائے پھر بھی فائرمین پھنسے ہوئے افراد کو بچایا جا سکتا تھا، مجرمانہ غفلت اور جانی نقصان پر فیکٹری مالک کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ جاں بحق دو مزدوروں کو لاشوں کو رشتہ پنجاب کے شہر رحیم یار خان لے گئے جہاں ان کی تدفین ہوگی جبکہ تیسرے مزدور کو سعید آباد میں سپرد خاک کردیا گیا۔

پولیس فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے اندراج کے لیے جاں بحق مزدوروں کے لواحقین کا انتظار کر رہی ہے۔

جاں بحق مزدوروں کی شناخت 21 سالہ علی شیر حیدری، محمد کاظم اور 20 سالہ فیاض کے نام سے ہوئی۔

علی شیر حیدری کے والد سلیم نے میڈیا کو بتایا کہ ان کا بیٹا فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد کسی طرح سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوا تھا لیکن ساتھی مزدوروں کی بچاؤ کی آوازیں سن کر واپس چلا گیا اور دیگر دو مزدوروں کو بچانے کی کوشش کے دوران جاں بحق ہوا۔ یہ بھی پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری پر دستاویزی فلم ’ڈسکاؤنٹ ورکر‘

فائر بریگیڈ کے افسر کا کہنا تھا کہ آگ پر صبح 8 بجے قابو پایا گیا اور اس دوران ایک فائر مین بھی زخمی ہوا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ فیکٹری میں دھاگا رکھا ہوا تھا جو کیمکل کی طرح تیزی سے آگ پھیلنے کا سبب بنا۔

فیکٹری میں آگ لگنے سے ہونے والے نقصانات کے حوالے سے سے تاحال حتمی طور پر کچھ نہیں بتایا جا سکتا۔

آتشزدگی کے بعد صوبائی وزیر اوقاف انورسیال نے متاثرہ فیکٹری پہنچے اور ریسکیوآپریشن کا جائزہ لیا۔

اس موقع پر انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے فیکٹری میں حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی تحقیقات کرانے اورذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی۔

تبصرے (0) بند ہیں