طالبان کو پاکستان میں مقدمات کے فیصلے کا کوئی اختیار نہیں، سپریم کورٹ

13 فروری 2021
عدالت عظمیٰ کے 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ کے 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ طالبان کے پاس مقدمات کے فیصلے کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہیں اور ان کا فیصلہ پاکستان پر لاگو نہیں ہوتا، جو ایک خودمختار ملک ہے، جس کا قابل اطلاق قانون اس کے حصے کے ہر انچ پر لاگو ہوتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ فیصلہ زمین کے تنازع کے مقدمے میں پشاور ہائی کورٹ کے 2019 کے حکم کے خلاف گل نواز اور دیگر کی درخواست پر دیا۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی توجہ اقرار نامہ (معاہدے) کی طرف مبذول کروائی گئی، یہ امارت اسلامی طالبان، وزیرستان وا افغانستان (طالبان) کا جاری کردہ ایک ’فیصلہ‘ تھا۔

عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا گیا کہ درخواست گزار زمین کے مخصوص حصے کی فروخت کے لیے 30 اپریل 2009 کو ایک معاہدے کا حصہ بن گئے تھے، ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ ٹرائل کورٹ کے جج کے سامنے زمین پر اپنے دعویٰ کی حمایت میں ثبوت فراہم کرتے لیکن وہ متعدد مواقع کے باوجود ایسا کرنے میں ناکام رہے، جس کے نتیجے میں ان کی سائڈ کو بند کردیا گیا تھا اور جج نے ان کے دعوے کو مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: افغان طالبان کے نام پر تاجروں سے بھتہ وصول کیے جانے کا انکشاف

بعد ازاں درخواست گزاروں نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا جس نے ان کی درخواست بھی مسترد کی تھی۔

سپریم کورٹ میں دائر کردہ اپنی درخواست میں ان لوگوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ ان کی سائڈ کو بند کرنے اور ان کے دعوے کو مسترد کرنے سے قبل ثبوتوں کے لیے انہیں مناسب وقت نہیں دیا گیا تھا۔

ٹرائل کورٹ نے اپنے 3 اکتوبر 2012 کے حکم میں درخواست گزاروں کی درخواست کا حوالہ دیا تھا جس میں انہوں نے ثانوی ثبوت کے ذریعے اقرار نامہ ثابت کرنے کے لیے ٹرائل کورٹ کی اجازت مانگی تھی کیونکہ اصل ثبوت مدعہ علیہ (راشد احمد) کے پاس تھا۔

سپریم کورٹ نے حکم میں یاد دلایا کہ درخواست گزاروں نے پہلے اقرار نامے پر انحصار کیا تھا لیکن بعد ازاں دلیل دی کہ ایک فیصلے کے بجائے دستاویز تھی۔

اس موقع پر اس سوال کہ کیا درخواست گزار بنیادی طور پر اپنا مؤقف تبدیل کرسکتے ہیں کو ایک طرف کرتے ہوئے جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ’’ہم نے دستاویز کی جانچ کی جو امارت اسلامی طالبان وزیرستان وا افغانستان کا ایک ’فیصلہ‘ تھا‘‘۔

جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے مطلوبہ فیصلے کو بطور معاہدہ متبادل درجہ بندی کی کوشش کی بھی اجازت نہیں تھی کیونکہ اس سے پاکستان کی خودمختاری کو نقصان پہنچا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ طالبان کو مقدمات کے فیصلے کا کوئی قانونی اختیار نہیں کیونکہ انہوں نے پاکستان میں دراندازی کی تھی اور 2005 کے وسط تک وزیرستان کے حصوں سمیت پاکستنان کے علاقے پر غیرقانونی قبضہ کرلیا تھا اور کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے اور پاکستان کا قابل اطلاق قانون اس کے حصے کے ہر انچ پر لاگو ہوتا ہے، مزید یہ کہ پاکستان کے علاقے کا ہر اسکوائر انچ قیمتی ہے اور اسے آزاد اور محفوظ رکھنا چاہیے۔

مزید کہ یہ طالبان کی جانب سے پاکستان کے علاقے کے کسی بھی حصہ کا قبضہ آئین کے خلاف ہے اور طالبان کی جانب سے ایسا کوئی بھی فیصلہ غیرآئینی، غیرقانونی ہوگا اور اس کا کوئی قانونی اثر نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کے سپریم لیڈر کا مخالفین کیلئے عام معافی کا اعلان

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’آئین کو پامال کرنا اور لوگوں کو محکوم رکھنا کسی جارحیت پسند کو قانونی حیثیت دیتا ہے نہ اس کے فیصلوں کو آئینی طور پر جائز قرار دیتا ہے‘۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ چونکہ مطلوبہ معائدے کانٹریکٹ ایکٹ 1872 کی دفعہ 23 کے شرائط میں ’حرام، غیرقانونی اور عوامی پالیسی کے مخالف‘ تھا لہٰذا اس کا کوئی قانونی اثر نہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق یہ آبزرو کیا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے ثبوت کے لیے درخواست گزاروں کو متعدد مواقع فراہم کیے تھے لیکن وہ مسلسل اپنے اور فریقین کے درمیان معاہدے کی بقا کی کوشش میں ناکام رہے، لہٰذا اپیل کرنے کی چھوٹ مسترد کری گئی ہے اور اس نے نتیجے میں درخواست مسترد کی جاتی ہے۔


یہ خبر 13 فروری 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں