پاور بریک ڈاؤن رپورٹ: 'ملک کے اکثریتی پاور پلانٹ آپریٹرز ناقص کارکردگی کے ذمہ دار'

اپ ڈیٹ 24 فروری 2021
گزشتہ ماہ کے اوائل میں بجلی کے طویل بریک ڈاؤن پر ایک آزاد تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی 24 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کردی۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی
گزشتہ ماہ کے اوائل میں بجلی کے طویل بریک ڈاؤن پر ایک آزاد تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی 24 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کردی۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی

اسلام آباد: گزشتہ ماہ کے اوائل میں بجلی کے طویل بریک ڈاؤن پر تحقیقات کے لیے قائم کی گئی ایک آزاد کمیٹی نے ملک کے پاور سسٹم آپریشنز میں سیفٹی اور سیکیورٹی پروٹوکول کی سنگین خلاف ورزیوں کا انکشاف کیا ہے جو سرکاری و نجی دونوں شعبوں کے پیداواری سہولیات سے شروع ہوکر ملک کے پورے بجلی کے نظام میں موجود ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے مقرر کردہ تین رکنی آزاد انکوائری کمیٹی کی رپورٹ بعنوان '9 جنوری 2021 کو پورے پاور سسٹم کی تباہی' 24 صفحات پر مشتمل ہے جس میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ 'زیادہ تر بجلی گھروں میں بلیک اسٹارٹ آپریشن موجود نہیں یا غیر فعال ہیں جو ملک میں بجلی کی فراہمی کو جلد بحال کرسکتے تھے'۔

نیپرا کے ڈائریکٹر جنرل نادر علی کھوسو اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے سابق سینئر عہدیداروں خالد محمود اور منو رام پر مشتمل کمیٹی نے بتایا کہ 'بجلی کے بریک ڈاؤن کی ماضی کی انکوائری رپورٹس کی سفارشات کو جزوی طور پر نافذ نہیں کیا گیا ورنہ تباہی کی شدت کو کم کیا جا سکتا تھا'۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ گڈو پاور پلانٹ کے 7 عہدیداروں کو درست معطل کیا گیا کیونکہ حفاظتی پروٹوکول کی عدم دستیابی کے سبب اس کے سوئچ یارڈ میں خرابی پھیل گئی تھی لیکن انتظامیہ بھی نگرانی کی کمی کی ذمہ دار ہے۔

رپورٹ میں این ٹی ڈی سی، کے الیکٹرک اور سرکاری و نجی شعبے کے اکثریتی پاور پلانٹ آپریٹرز کو ناقص کارکردگی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ غلطی گڈو پاور پلانٹ کے عملے کی سراسر غفلت کی وجہ سے ہوئی ہے جس نے 220 کے وی سرکٹ بریکر کو 220 کے وی آئی سولیٹر کے ارتھ سوئچ کو کھولے بغیر چلایا تھا اور وہ بھی نیشنل پاور کنٹرول سینٹر (این پی سی سی) کی اجازت کے بغیر۔

بدقسمتی سے نہ صرف بریکر ٹرپ ہونے میں ناکام رہا بلکہ بریکر کی فریکونسی اسکیم بھی کام نہیں کرسکی تھی۔

نتیجتاً بولٹڈ فالٹ کی وجہ سے یکے بعد دیگرے ٹرپنگ ہوئی جس نے جنوبی اور شمالی زون میں بجلی کا نظام تقسیم کردیا۔

پیداوار، لوڈ گیپ

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کے نتیجے میں جنریشن اور لوڈ کے درمیان کافی عدم توازن بھی پیدا ہوا۔

کے الیکٹرک سمیت ساؤتھ زون میں لوڈ کے مقابلے میں زیادہ جنریشن تھی جو پہلے اوور وولٹیج یا زیادہ اسپیڈ یا زیادہ فریکوئنسی کی وجہ سے ٹرپ کرگیا۔

شمالی زون کا بجلی کا نظام فریکوئنسی صورتحال کی وجہ سے ٹرپ ہوا جہاں بجلی کے لوڈ کے مقابلے میں جنریشن بہت کم تھی۔

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سسٹم آپریٹر (این ٹی ڈی سی) نے بجلی گھروں کے ساتھ مل کر اپنے اپنے علاقوں میں بجلی کی فراہمی کی مکمل بحالی میں تقریبا 20 گھنٹے کا وقت لیا اور کے الیکٹرک نے تقریبا 22 گھنٹے کا وقت لیا۔

بحالی کا وقت بہت زیادہ رہا اور بجلی گھروں کی طرف سے خامیاں دیکھنے میں آئیں جو این پی سی سی کی جانب سے پیشگی اطلاع کے باوجود مخصوص وقت میں اپنے تمام یونٹس کو دوبارہ شروع کرنے اور ہم آہنگی کرنے میں ناکام رہی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ این ٹی ڈی سی اور کے ای دونوں کے سسٹم آپریٹرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ مجموعی یا جزوی طور پر بند ہونے کے بعد سسٹم کی بازیابی کے لیے ہنگامی منصوبے اور ایس او پیز تشکیل دیں لیکن ایسی کوئی دستاویز انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش نہیں کی گئی۔

تحقیقاتی کمیٹی کا کہنا تھا کہ 'لہذا این ٹی ڈی سی، کے ای متعلقہ بجلی گھروں کے ساتھ مل کر بجلی کے نظام کی مکمل بحالی میں تاخیر کے ذمہ دار ہیں'۔

گزشتہ رپورٹس کے جائزے سے انکشاف ہوا ہے کہ سفارشات کی جزوی طور پر تعمیل کی گئی تھی یا ابھی جاری ہے یا زیر التوا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تربیلا ، منگلا ، ورسک اور اچ کے علاوہ بیشتر بجلی گھروں میں بلیک اسٹارٹ سہولت موجود نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں