تربیلا جھیل سے 4 انسانی لاشوں کی باقیات برآمد

اپ ڈیٹ 10 مارچ 2021
پولیس اور مقامی افراد نے مل کر پانی سے لاشوں کو نکالا—فائل فوٹو: شٹراسٹاک
پولیس اور مقامی افراد نے مل کر پانی سے لاشوں کو نکالا—فائل فوٹو: شٹراسٹاک

ہری پور: مقامی پولیس نے بیت گلی یونین کونسل کے گاؤں برگ کے قریب تربیلا جھیل سے 4 پرانی اور ناقابل شناخت لاشیں برآمد کرلیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پانی کی سطح پیچھے کی طرف ہٹ رہی ہے جس کی وجہ سے مقامی افراد کو تربیلا ڈیم کے نزدیک لاشیں تیرتی ہوئیں نظر آئیں۔

پولیس کا خیال ہے کہ یہ ناقابل شناخت لاشیں ان 18 لاپتا مسافروں میں سے کسی کی ہوسکتی ہیں جو 20 ماہ قبل ایک کشتی الٹنے سے ڈوب گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ہری پور کے قریب دریائے سندھ میں کشتی الٹ گئی، 50 مسافر لاپتہ

غازی پولیس حکام کا کہنا تھا کہ گاؤں کے کچھ رہائشی منگل کی دوپہر ڈیم کے نزدیک مچھلی کا شکار کررہے تھے جب انہیں 4 انسانی لاشوں کی باقیات نظر آئیں اور انہوں نے پولیس کو اطلاع دی۔

پولیس اور مقامی افراد نے مل کر پانی سے لاشوں کو نکالا اور انہیں ہری پور ٹراما سینٹر منتقل کردیا۔

حکام کا کہنا تھا کہ بدقسمت کشتی میں سوار ایک لاپتا مسافر ماسٹر دُریامن کے اہلِ خانہ نے ان کے پہنے ہوئے کپڑوں کے ٹکڑے کی مدد سے ایک لاش شناخت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

مزید پڑھیں: ٹھٹہ: کینجھر جھیل میں کشتی الٹنے سے ایک ہی خاندان کی 10 خواتین، بچے جاں بحق

تاہم ایک کم سن لڑکے سمیت دیگر لاشوں کی شناخت نہیں کی جاسکی۔

خیال رہے کہ 3 جولائی 2019 کو ہری پور جانے والی کشتی میں 6 خواتین اور بچوں سمیت 38 افراد، بھاری سامان اور 8 بیل شامل تھے جو مبینہ طور پر سیلابی ریلے اور کچھ بیلوں کے پانی میں چھلانگ لگانے کے سبب توازن برقرار نہیں رکھ سکی اور ڈوب گئی تھی۔

مذکورہ کشتی ضلع تورغر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر جودبا سے روانہ ہوئی تھی اور برگ گاؤں سے ایک ناٹیکل میل کے فاصلے پر الٹ گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: خیرپور: دریائے سندھ میں کشتی الٹ گئی، خاتون اور 3 بچے جاں بحق

کشتی میں سوار 4 بچوں کی لاشیں اسی روز نکال لی گئی تھیں، 16 مرد تربیلا جھیل کے کنارے تیر کر آنے میں کامیاب رہے تھے جبکہ 18 مسافر اب تک لاپتا تھے۔

مقامی افراد، تربیلا ڈیم اور پاک بحریہ کے غوطہ خوروں کی مدد سے ایک ماہ تک جاری رہنے والا تلاش و امداد کا آپریشن بھی ان لاپتا مسافروں کا سراغ لگانے میں ناکام رہا تھا۔


یہ خبر 10 مارچ 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں