'این اے 75 میں دو ہیوی ویٹس کی لڑائی ہے اور بھگت رہے ہیں عوام'

اپ ڈیٹ 24 مارچ 2021
ضمنی انتخاب کے لیے الیکشن کمیشن نے مختص بجٹ کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
ضمنی انتخاب کے لیے الیکشن کمیشن نے مختص بجٹ کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-75 ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب کے معاملے پر سماعت میں جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ این اے 75 میں دو ہیوی ویٹس کی لڑائی ہے، دونوں انا کے ساتھ لڑ رہے ہیں، لڑائی بڑوں کی ہے اور بھگت عوام رہے ہیں، عوام کو ہیوی ویٹس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی امیدوار علی اسجد ملہی کی درخواست پر سماعت کی۔

مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت میں شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈسکہ انتخاب: پولیس کا عدم تعاون دوبارہ پولنگ کا جواز نہیں ہوسکتا، سپریم کورٹ

سماعت میں دلائل کا آغاز کرتے ہوئے علی اسجد ملہی کے وکیل شہزاد شوکت نے کہا کہ ضمنی انتخابات میں ہمیشہ ٹرن آؤٹ کم رہتا ہے، کم ٹرن آؤٹ ایک معمول کی بات ہے۔

وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے ٹرن آؤٹ کی تفصیلات لیں، جس پر عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو اعداد و شمار کی تصدیق کرنے کی ہدایت کی۔

وکیل کا مؤقف تھا کہ کم ٹرن آؤٹ پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کی وجہ نہیں ہو سکتی جبکہ حلقے میں امن و امان کی صورتحال بھی خراب تھی، ہر الیکشن میں ایسے واقعات ہوتے ہیں اس پر پورا الیکشن کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔

سماعت میں جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ این اے 75 میں دو ہیوی ویٹس کی لڑائی ہے، دونوں انا کے ساتھ لڑ رہے ہیں، لڑائی بڑوں کی ہے اور بھگت عوام رہے ہیں، عوام کو ہیوی ویٹس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔

اس دوران تحریک انصاف کے وکیل نے حلقے میں ہونے والے تصادم اور ہوائی فائرنگ کے واقعات کی تفصیلات بھی عدالت کو فراہم کیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جن عدالتی دلیلوں کا حوالے دے رہے ہیں ان میں جیت کا تناسب متنازع ووٹوں سے کم تھا۔

مزید پڑھیں: ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب ہر صورت ہوگا، سپریم کورٹ

وکیل تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی شکایت کا مرکز پنجاب حکومت کی ناکامی ہے، ضمنی انتخابات کے دوران رینجرز بھی موجود تھی۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت نہیں بلکہ صوبائی انتظامیہ پر بات کی، الیکشن کمیشن کے فیصلے میں رینجرز کا کوئی ذکر نہیں ہے، ہمیں بتائیں الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں کہاں رینجرز کا ذکر ہے۔

جس پر وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ اس بارے میں ریکارڈ خاموش ہے، پنجاب حکومت کی رپورٹ میں رینجرز کا ذکر ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم اسے آسمانی صحیفہ تسلیم نہیں کر سکتے، دو ہیوی ویٹ امیدواروں کے درمیان ضمنی انتخاب ہوا، پر تشدد واقعات کے باعث حلقے کے عوام متاثر ہوئے، جو دلیل آپ دے رہے ہیں وہ صرف پنجاب حکومت کا یک طرفہ مؤقف ہے، ہم نے الیکشن کمیشن کے مؤقف کو بھی سامنے رکھنا ہے۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر کا علی اسجد کے وکیل سے مکالمہ ہوا جج نے استفسار کیا کہ جب ویڈیوز سامنے آئیں تو کیا آپ نے اعتراض اٹھایا؟

یہ بھی پڑھیں: ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب: پی ٹی آئی کے اُمیدوار کا فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع

جس پر وکیل نے بتایا کہ علی ظفر الیکشن کمیشن میں موجود تھے، شاید انہوں نے اعتراض اٹھایا ہو تاہم الیکشن کمیشن نے فوری طور پر مختصر فیصلہ سنا دیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں ویڈیو کا کہہ رہا ہوں، آپ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو لے آئے۔

دورانِ سماعت علی اسجد ملہی کے وکیل شہزاد شوکت کے دلائل مکمل ہوئے اور نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کیا۔

سلمان اکرم راجا نے کہا ہے کہ یہ عام کیس نہیں ہے، یہ منظم دھاندلی سے متعلق کیس ہے، انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم نہیں کی گئی، الیکشن کمیشن نے خود منظم دھاندلی کو تسلیم کیا۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے دھاندلی کے باعث فیصلہ بھی دیا، پریزائیڈنگ افسران اور انتخابی مواد غائب ہوا، حیرت تو یہ ہے انتخابی مواد اور عملہ پولیس کے تحفظ میں تھا، الیکشن کمیشن نے اپنے عملے سے رابطہ کی متعدد کوششیں کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ کمیشن کی جانب سے انتظامیہ سے رابطوں کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں، حیرت ہے موبائل فونز کے ساتھ پولیس وائرلیس بھی اس وقت کام نہیں کر رہی تھی۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا غائب ہونے والے پریزائیڈنگ افسران پولیس اسکواڈ میں تھے؟ جس پر مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کے وکیل نے کہا کہ جی ہاں عملے کی گاڑی کے ہمراہ پولیس کی گاڑیاں بھی موجود تھیں، غائب عملہ اور سامان ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ سے سامنے آئے۔

مزید پڑھیں: این اے 75 ڈسکہ میں ضمنی انتخاب اب 10 اپریل کو ہوگا، الیکشن کمیشن

ایس ڈی پی او ذوالفقار ورک کے معاملے پر جسٹس منیب اختر نے سلمان راجا کی درستی کروائی، ان کے استفسار پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ ذوالفقار ورک پورے حلقے کے نہیں صرف 2 پولیس اسٹیشنز کے انچارج تھے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ جب ڈسکہ ضمنی انتخاب میں ایک فریق مضبوط ہے تو وہ جھگڑا کیوں کرے گا جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ پولنگ کے دوران جھگڑے اور پر تشدد واقعات منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوئے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پُر تشدد واقعات کی منصوبہ بندی کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کوئی ذکر نہیں ہے۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ انتخابات میں روایتی طور پر خواتین کا ٹرن آؤٹ کم ہوتا ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ معاملہ ٹرن آؤٹ کی کمی کا نہیں ہے، پولنگ کا عمل رکنے کے واقعات ہوئے ہیں۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں ضمنی انتخاب کے دوران واقعات کی ویڈیوز چلائی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم ڈسکہ کے 20 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ انتخاب کے خواہاں

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے مسلم لیگ (ن) کے وکیل سے کہا کہ 20 فروری کو آپ نے درخواست دی، 22 فروری کو نوٹسز جاری ہوئے، 23 فروری کو الیکشن کمیشن نے معاملے کی سماعت شروع کردی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے دریافت کیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نوٹس کا ٹائٹل کیا تھا، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ نوٹس 23 پولنگ اسٹیشنز کے حوالے سے جاری کیا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے 23 پولنگ اسٹیشنز کے حوالے سے درخواست دی، ریلیف پورے حلقے کا دے دیا گیا، 23 پولنگ اسٹیشنز کی درخواست پر 360 پولنگ اسٹیشنز کا ریلیف حیران کن ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے سلمان اکرم راجا سے کہا کہ آپ بنیادی بات پر آئیں، مہربانی کریں ہمیں حقائق بتائیں، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ کورٹ روم میں نہ ہونے کی وجہ سے اپنی بات نہیں پہنچا پا رہا جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ اگے بڑھیں سوالات سمجھیں۔

بعدازاں عدالت نے کہا کہ سلمان اکرم راجا کو تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کی اور سماعت کل کے لیے ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: ضمنی انتخاب: الیکشن کمیشن نے این اے 75 کا نتیجہ روک دیا

دوسری جانب قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-75 سیالکوٹ (ڈسکہ) میں ضمنی انتخاب کے لیے الیکشن کمیشن نے مختص بجٹ کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں۔

علاوہ ازیں ڈسکہ ضمنی انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی 23 اور 25 فروری کی عوامی سماعت کا ریکارڈ بھی جمع کروایا گیا۔

الیکشن کمیشن کے مطابق ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ کے لیے مختص بجٹ 25 فروری کو جاری کیا گیا جس میں پولنگ کے لیے ایک کروڑ 91 لاکھ 78 ہزار روپے مختص کیے۔

ڈسکہ ضمنی انتخاب

خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ 75 (سیالکوٹ فور) میں ضمنی انتخاب میں نتائج میں غیر ضروری تاخیر اور عملے کے لاپتا ہونے پر 20 پولنگ اسٹیشن کے نتائج میں ردو بدل کے خدشے کے پیش نظر الیکشن کمیشن نے متعلقہ افسران کو غیرحتمی نتیجے کے اعلان سے روک دیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) نے دھاندلی کے الزامات عائد کر کے دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا تھا جس پر وزیراعظم عمران خاں نے ڈسکہ میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-75 پر ہوئے ضمنی انتخاب میں مبینہ دھاندلی کے الزامات پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اُمیدوار سے 20 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دینے کا کہا تھا۔

جس پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بناتے ہوئے این اے 75 ڈسکہ کا ضمنی الیکشن کالعدم قرار دیا اور 18 مارچ کو حلقے میں دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم دیا تھا۔

جس پر اس ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والے پی ٹی آئی)کے امیدوار علی اسجد ملہی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

درخواست میں انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ الیکشن کمیشن نے صورتحال اور حقائق کو بالکل فراموش کرتے ہوئے فیصلہ کیا جو 'واضح طور پر غیر منصفانہ اور غیر قانونی' ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے دستیاب ریکارڈ کا درست جائزہ نہیں لیا، حلقے میں دوبارہ انتخابات کا کوئی جواز نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں