ڈسکہ انتخاب: پولیس کا عدم تعاون دوبارہ پولنگ کا جواز نہیں ہوسکتا، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 19 مارچ 2021
ڈائریکٹر جنرل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں انتخاب پر ایک کروڑ 90 لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
ڈائریکٹر جنرل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں انتخاب پر ایک کروڑ 90 لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں ڈسکہ انتخاب سے متعلق درخواست کی سماعت میں جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیا ہوائی فائرنگ اتنا شدید مسئلہ ہے کہ دوبارہ الیکشن ہوں؟ پولیس کا عدم تعاون دوبارہ پولنگ کا جواز نہیں ہوسکتا پولیس کے خلاف تو کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی امیدوار ساجد ملہی کی جانب سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-75 سیالکوٹ (ڈسکہ) میں دوبارہ انتخاب سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

عدالت نے پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ فوری طور پر معطل کرنے کی استدعا دوبارہ مسترد کردی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ دوبارہ الیکشن کا حکم معطل کر بھی دیں تو کچھ نہیں ہوگا، پولنگ ختم ہونے کے 10گھنٹے بعد نوشین افتخار نے درخواست دی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب ہر صورت ہوگا، سپریم کورٹ

سماعت کے آغاز میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتخار کی جانب سے پیش ہونے والے معاون وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وکیل سلمان اکرم راجا کو کورونا ہوگیا ہے اس لیے مجھے عدالت میں پیش ہونے کا کہا گیا ہے، کیس کی تیاری کے لیے ایک دن کی مہلت دی جائے، عدالت چاہے تو سلمان اکرم راجا زوم کے ذریعے دلائل دے سکتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق قانون کی خلاف ورزی پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا گیا، پیش کردہ نقشے کے مطابق 20 پریزائیڈنگ افسران صبح تک غائب تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام کشیدگی ڈسکہ کے شہری علاقے میں ہوئی، الیکشن کمیشن کا تفصیلی فیصلہ اور جواب اہمیت کے حامل ہیں۔

پی ٹی آئی امیدوار کی پیروی کرنے والے وکیل شہزاد شوکت نے مؤقف اختیار کیا کہ نوشین افتخار نے صبح 4 بجے 23 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ ووٹنگ کی درخواست دی جبکہ صبح سوا 5 بجے 23 پولنگ اسٹیشنز کے فرانزیک آڈٹ کی درخواست کی گئی اور دوسری درخواست میں ڈسکہ کے 36 پولنگ اسٹیشنز بھی شامل کرلیے گئے۔

وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریٹرننگ افسر نے 14 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ ووٹنگ کی سفارش کی، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے مطابق پولنگ اسٹیشن کے باہر دونوں پارٹیوں کا ایک ایک شخص قتل ہوا۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا این اے-75 ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب کروانے کا حکم

وکیل شہزاد شوکت کے مطابق الیکشن کمیشن نے کہا کہ پولیس نے پولنگ کے دن پرتشدد واقعات پر اندھے جیسا کردار ادا کیا، ہر ضمنی انتخابات میں جنرل الیکشن کے مقابلے میں ٹرن آؤٹ کم ہوتا ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ پولنگ کے دن ووٹنگ کیوں معطل رہی؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن ایکٹ سیکشن 88 کے تحت اگر پولنگ معطل ہو تو پریزائیڈنگ افسر ریٹرننگ افسر کو رپورٹ کرتا ہے لیکن ڈسکہ میں کسی ریٹرننگ افسر نے کوئی رپورٹ ڈی آر او کو جمع نہیں کرائی۔

جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر پولنگ معطل ہو کر دوبارہ شروع ہو تو الیکشن ایکٹ کا سیکشن 88 لاگو نہیں ہوتا۔

وکیل نے کہا کہ اگر یہ الزام ہوتا کہ ووٹر پولنگ اسٹیشنز کے باہر رکے رہے اور ووٹ نہیں ڈال سکے تو بات الگ تھی، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے ووٹرز بھگا دیے تھے وہ پولنگ اسٹیشن کے باہر کیسے رہتے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کچھ پریزائیڈنگ افسران نے اپنے فون بند کر دیے اور اکھٹے غائب ہوگئے اور تمام غائب ہونے والے پریزائیڈنگ افسران صبح یکایک ایک ساتھ نمودار ہوئے، کیا تمام پریذائیڈنگ افسران غائب ہو کر ناشتہ کرنے گئے تھے؟

وکیل شہزاد شوکت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایک ڈی ایس پی کا بہانہ کر کے پورا الیکشن متنازع قرار دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ضمنی انتخاب: الیکشن کمیشن نے این اے 75 کا نتیجہ روک دیا

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق اس ڈی ایس پی کو حلقے کا سیکیورٹی انچارج لگایا گیا تھا جس پر وکیل شہزاد شوکت نے کہا کہ ڈی ایس پی ذوالفقار ورک کو سیکیورٹی انچارج لگانے کی بات بالکل غلط ہے۔

وکیل پی ٹی آئی نے دلیل دی کہ سیکشن 9 کے تحت الیکشن کمیشن کو انکوائری کروانا چاہیے تھی جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کو کالعدم کرنا انتظامی فیصلہ تھا، انتظامی فیصلے تو فوری کرنا پڑتا ہے جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ انتظامی فیصلے کے لیے انکوائری کا ہونا ضروری تھا،الیکشن کمیشن نے ویڈیو پر انحصار کرکے فیصلہ دیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ڈی آر او کی رپورٹ کے مطابق کئی پولنگ اسٹیشنز پر فائرنگ ہوئی، 20 پریذائیڈنگ افسران جہاں سے لاپتا ہوئے وہاں فائرنگ کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

علاوہ ازیں گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ کی جانب سے ایک حلقے میں انتخاب کی تفصیلات طلب کرنے پر آج ڈائریکٹر جنرل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں انتخاب پر ایک کروڑ 90 لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ دوبارہ چیک کریں یہ اخراجات کم لگتے ہیں، جائزہ لے رہے ہیں الیکشن صاف شفاف ہوا یا نہیں، حلقے میں تصادم ہوا پولیس دیکھتی رہے، شاید پولیس کی انتخابات کے حوالے سے ٹریننگ نہیں تھی۔

مزید پڑھیں: ڈسکہ ضمنی انتخاب میں 'دھاندلی' کی تحقیقات ری پولنگ سے زیادہ ضروری ہے، نواز شریف

جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے فریقین کو ری پولنگ کا نوٹس ارسال کیا؟

ڈسکہ الیکشن میں قانون پر عمل نہیں ہوا، کیا ہوائی فائرنگ اتنا شدید مسئلہ ہے کہ دوبارہ الیکشن ہوں؟الیکشن کمیشن نے پولیس کے عدم تعاون کا غصہ نکالا، پولیس کے خلاف تو کارروائی بھی ہوسکتی ہے، پولیس کا عدم تعاون دوبارہ پولنگ کا جواز نہیں ہوسکتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئینی اداروں کا بہت احترام کرتے ہیں، جسٹس عمر عطا بندیال کیس آئندہ ہفتے سماعت کے لیے مقرر کریں گے، الیکشن کمیشن کے وکیل بتائیں، حلقے میں پولنگ کب ہے؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کے لیے پولنگ 10 اپریل کو شیڈول ہے۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کورونا سے متاثر ہونے کی بنا پر مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کے وکیل سلمان اکرم راجا کو ویڈیو لنک پر دلائل کی اجازت دے دی۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مقدمے کی سماعت یوم پاکستان کے بعد مقرر کریں گے، ساتھ ہی این اے 75 ڈسکہ ضمنی انتخاب سے متعلق کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

ڈسکہ ضمنی انتخاب

خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ 75 (سیالکوٹ فور) میں ضمنی انتخاب میں نتائج میں غیر ضروری تاخیر اور عملے کے لاپتا ہونے پر 20 پولنگ اسٹیشن کے نتائج میں ردو بدل کے خدشے کے پیش نظر الیکشن کمیشن نے متعلقہ افسران کو غیرحتمی نتیجے کے اعلان سے روک دیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) نے دھاندلی کے الزامات عائد کر کے دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا تھا جس پر وزیراعظم عمران خاں نے ڈسکہ میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-75 پر ہوئے ضمنی انتخاب میں مبینہ دھاندلی کے الزامات پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اُمیدوار سے 20 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دینے کا کہا تھا۔

جس پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بناتے ہوئے این اے 75 ڈسکہ کا ضمنی الیکشن کالعدم قرار دیا اور 18 مارچ کو حلقے میں دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم دیا تھا۔

جس پر اس ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والے پی ٹی آئی)کے امیدوار علی اسجد ملہی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

درخواست میں انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ الیکشن کمیشن نے صورتحال اور حقائق کو بالکل فراموش کرتے ہوئے فیصلہ کیا جو 'واضح طور پر غیر منصفانہ اور غیر قانونی' ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے دستیاب ریکارڈ کا درست جائزہ نہیں لیا، حلقے میں دوبارہ انتخابات کا کوئی جواز نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں