پشاور: عدالت کا عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف اندراجِ مقدمہ کا حکم

جج سید شوکت اللہ شاہ نے 5 وکیلوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر یہ حکم دیا—فائل فوٹو: اے ایف پی
جج سید شوکت اللہ شاہ نے 5 وکیلوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر یہ حکم دیا—فائل فوٹو: اے ایف پی

پشاور کی ایک مقامی عدالت نے رواں برس اسلام آباد میں ہونے والے عورت مارچ میں مبینہ طور پر حضرت محمد ﷺ اور حضرت عائشہؓ کے خلاف 'توہین آمیز نعروں' اور 'نازیبا پوسٹرز' کی موجودگی پر مارچ کے منتظمین کے خلاف اندارجِ مقدمہ کا حکم دے دیا۔

جج سید شوکت اللہ شاہ نے 5 وکیلوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر مذکورہ حکم دیا۔

یہ درخواست ابرار حسین، اسرار حسین، کاشف احمد ترکئی، صیاد حسین اور عدنان گوہر نے دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: پشاور: عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

درخواست کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے سیکشن 22-اے کے تحت دائر کی گئی ہے جو عدالت کو 'امن کے منصف' کے طور پر کام کرنے اور پولیس کی ناکامی کی صورت میں کسی جرم کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دینے کا اختیار دیتی ہے۔

اپنی درخواست میں وکلا نے الزام لگایا تھا کہ 8 مارچ کو منعقد ہونے والے عورت مارچ 2021 کے دوران 'حضرت محمد ﷺ اور بی بی عائشہؓ کے حوالے سے توہین آمیز بیانات جاری کیے گئے اس کے علاوہ منتظمین کی ہدایات پر غیر اسلامی اور نازیبا پوسٹرز بھی نکالے گئے جس سے ان سمیت تمام مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے'۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے 'توہین آمیز اور غیراسلامی مواد' اس وقت دیکھا جب وہ پشاور میں عدالت کی حدود میں تھے اور بعدازاں انہوں نے ایس ایچ او ایسٹ کینٹ کے پاس ایف آئی آر درج کرنے کے لیے شکایت کی تھی لیکن وہ 'ہچکچاہٹ'کا شکار تھے۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی یومِ خواتین کے موقع پر مختلف شہروں میں عورت مارچ کا انعقاد

جج سید شوکت اللہ شاہ نے کہا کہ درخواست گزار کے دلائل سنے گئے ہیں اور ریکارڈ کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔

انہوں نے ایس ایچ او ایسٹ کینٹ کو متعلقہ قانون کے مطابق درخواست گزاروں کی جانب سے رپورٹ کیے گئے واقعے کی ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کی۔

اس سے قبل خیبرپختونخوا بار کونسل نے 15 مارچ کو اپنے اجلاس میں 2 قراردادیں منظور کی تھیں اور حکومت سے مختلف آرگنائزرز اور این جی اوز کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا جنہوں نے مختلف شہروں میں عورت مارچ کا انعقاد کیا تھا۔

مزید پڑھیں: عورت مارچ میں مبینہ متنازع نعروں کی تفتیش کا آغاز کردیا، وزارت مذہبی امور

بار کونسل نے دعویٰ کیا تھا کہ اس مارچ کے شرکا، نعرے بازی اور اشتعال انگیز بینرز کے ذریعے مقدس شخصیات کی بے حرمتی میں ملوث ہیں لہذا ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔

عالمی یوم خواتین کے موقع پر ملک کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں عورت مارچ منعقد ہوتے ہیں اور ایسے مارچ نے گزشتہ چند سال میں اچھی خاصی شہرت بھی حاصل کی تاہم ساتھ ہی اس مارچ پر خاصی تنقید بھی کی جاتی ہے۔

عورت مارچ کے منتظمین پہلے ہی یہ واضح کر چکے ہیں کہ انہوں نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر نکالے جانے والے مارچ میں گستاخانہ نعرے نہیں لگائے اور ان کی ویڈیو کو ’ایڈٹ‘ کرکے پھیلایا گیا۔

مزید پڑھیں: عورت مارچ منتظمین کا ’ایڈٹ شدہ‘ ویڈیو پھیلانے والوں سے معافی کا مطالبہ

عورت مارچ کے منتظمین نے 10 مارچ کو اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ہر سال عورت مارچ کے خلاف پروپیگنڈا کرکے ان کی ویڈیوز اور بینرز کو تبدیل کرکے غلط معلومات کو پھیلایا جاتا ہے۔

ٹوئٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ اس سال ان کے مارچ کی ایک ویڈیو کو ایڈٹ کرکے اسے پھیلایا گیا۔

منتظمین کے مطابق جعلی ویڈیو کو پھیلاکر عورت مارچ کے منتظمین پر توہین کے الزامات لگانے کی کوشش کی گئی۔

عورت مارچ کے منتظمین نے مارچ میں نعرے لگائے جانے کی اصلی ویڈیو بھی شیئر کی تھی اور بتایا تھا کہ کس طرح ان کے نعروں کو ’ایڈٹ‘ کرکے ان کے بعض نعروں سے لفظ حذف جبکہ بعض میں اضافی لفظ شامل کرکے ان کے خلاف من گھڑت معلومات پھیلائی گئیں۔

بعدازاں وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا تھا کہ گزشتہ ہفتے عورت مارچ میں لگائے جانے والے مبینہ متنازع نعروں کے معاملے کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں