پشاور: عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2021
جج سید شوکت اللہ  درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ کل سنائیں گے—فائل فوٹو: ٹوئٹر
جج سید شوکت اللہ درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ کل سنائیں گے—فائل فوٹو: ٹوئٹر

پشاور کی عدالت نے مقامی وکیل کی جانب سے اسلام آباد میں 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کی ریلی میں 'اسلام مخالف' نعروں پر 'عورت مارچ' کے منتظمین کے خلاف پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دینے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جج سید شوکت اللہ مذکورہ درخواست پر محفوظ فیصلہ کل (جمعہ کو) سنائیں گے۔

مذکورہ درخواست، وکیل ابرار حسین کی جانب سے کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے سیکشن 22-اے کے تحت دائر کی گئی ہے جو عدالت کو 'امن کے منصف' کے طور پر کام کرنے اور پولیس کی ناکامی کی صورت میں کسی جرم کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دینے کا اختیار دیتی ہے۔

مزید پڑھیں: عورت مارچ میں مبینہ متنازع نعروں کی تفتیش کا آغاز کردیا، وزارت مذہبی امور

درخواست گزار کے وکلا اجمل مہمند اور گوہر سلیم نے مؤقف اپنایا کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر، عورت مارچ کے منتظمین نے مختلف شہروں میں مظاہرہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایسا ہی ایک مارچ اسلام آباد میں ہوا جہاں شرکا نے اسلام مخالف نعرے بازی کی تھی اور اس سے لوگوں کی بڑی تعداد کے جذبات مجروح ہوئے تھے۔

وکلا نے کہا کہ حکومت اور اسلام آباد نے اب تک اس مارچ کی انتظامیہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار نے مقدمے کے اندراج کے لیے پشاور کے ایسٹ کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن سے رجوع کیا تھا لیکن پولیس اس معاملے میں ہچکچاہٹ کاشکار تھی۔

وکیل نے مؤقف اپنایا کہ عورت مارچ کے دوران ایک سنگین جرم ہوا ہے لہذا ایونٹ انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا پولیس کا فرض ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی یومِ خواتین کے موقع پر مختلف شہروں میں عورت مارچ کا انعقاد

انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ویسٹ کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن کے عہدیداران کو منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور ان کے خلاف مناسب کارروائی کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔

اس سے قبل خیبرپختونخوا بار کونسل نے 15 مارچ کو اپنے اجلاس میں 2 قراردادیں منظور کی تھیں اور حکومت سے مختلف آرگنائزرز اور این جی اوز کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا جنہوں نے مختلف شہروں میں عورت مارچ کا انعقاد کیا تھا۔

بار کونسل نے دعویٰ کیا تھا کہ اس مارچ کے شرکا، نعرے بازی اور اشتعال انگیز بینرز کے ذریعے مقدس شخصیات کی بےحرمتی میں ملوث ہیں لہذا ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔

عالمی یوم خواتین کے موقع پر ملک کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں عورت مارچ منعقد ہوتے ہیں اور ایسے مارچ نے گزشتہ چند سال میں اچھی خاصی شہرت بھی حاصل کی تاہم ساتھ ہی اس مارچ پر خاصی تنقید بھی کی جاتی ہے۔

عورت مارچ کے منتظمین پہلے ہی یہ واضح کر چکے ہیں کہ انہوں نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر نکالے جانے والے مارچ میں گستاخانہ نعرے نہیں لگائے اور ان کی ویڈیو کو ’ایڈٹ‘ کرکے پھیلایا گیا۔

مزید پڑھیں: عورت مارچ منتظمین کا ’ایڈٹ شدہ‘ ویڈیو پھیلانے والوں سے معافی کا مطالبہ

عورت مارچ کے منتظمین نے 10 مارچ کو اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ہر سال عورت مارچ کے خلاف پروپیگنڈا کرکے ان کی ویڈیوز اور بینرز کو تبدیل کرکے غلط معلومات کو پھیلایا جاتا ہے۔

ٹوئٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ اس سال ان کے مارچ کی ایک ویڈیو کو تبدیل کرکے اسے پھیلایا گیا۔

منتظمین کے مطابق جعلی ویڈیو کو پھیلاکر عورت مارچ کے منتظمین پر توہین کے الزامات لگانے کی کوشش کی گئی۔

عورت مارچ کے منتظمین نے مارچ میں نعرے لگائے جانے کی اصلی ویڈیو بھی شیئر کی تھی اور بتایا تھا کہ کس طرح ان کے نعروں کو ’ایڈٹ‘ کرکے ان کے بعض نعروں سے لفظ حذف جبکہ بعض میں اضافی لفظ شامل کرکے ان کے خلاف من گھڑت معلومات پھیلائی گئیں۔

بعدازاں وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا تھا کہ گزشتہ ہفتے عورت مارچ میں لگائے جانے والے مبینہ متنازع نعروں کے معاملے کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں