حکومت-ٹی ایل پی معاہدے سے پنجاب پولیس کے سینئر افسران مضطرب

اپ ڈیٹ 22 اپريل 2021
فرائض کی انجام دہی میں 4 پولیس اہلکاروں نے اپنی زندگیاں قربان کیں جبکہ دیگر ایک ہزار زخمی ہوئے—فائل فوٹو: اے ایف پی
فرائض کی انجام دہی میں 4 پولیس اہلکاروں نے اپنی زندگیاں قربان کیں جبکہ دیگر ایک ہزار زخمی ہوئے—فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور: پنجاب پولیس کی سینئر کمانڈ، حکومت اور کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مابین ہونے والے معاہدے پر پریشان نظر آتی ہے اور انہوں نے اس معاہدے کو 'قبل از وقت اور غیر ضروری معاہدہ' بھی قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کچھ سینئر عہدیداران کا کہنا تھا کہ حکومت کے فیصلے نے نہ صرف پولیس فورس کا مورال کم کیا ہے بلکہ اس قسم کے گروہ کو ایک پیغام بھی دیا کہ 'ریاست کبھی بھی کسی بھی دباؤ پر کوئی اقدام واپس لے سکتی ہے'۔

پولیس افسران نے خبردار کیا کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ہزاروں کارکنان کو بغیر سزا دیے رہا کرنا آپریشن میں حصہ لینے والے اہلکاروں کے لیے تباہ کن ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:ٹی ایل پی پر عائد پابندی ہٹانے کا کوئی ارادہ نہیں، وزیراعظم

اس معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کے افسران نے الزام عائد کیا کہ اس معاہدے نے پولیس فورس کی قربانیوں کی 'بے عزتی' کی جو ہمیشہ قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایک کے بعد ایک حکمران پولیس کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔

حکومت اور ٹی ایل پی معاہدے کے تناظر میں ایک سینئر پولیس افسر نے بغیر لگی لپٹی رکھے کہا کہ 'پہلے پولیس فورس لانچ کی جاتی ہے اور پھر اس کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس کی سینئر کمانڈ نے (بہت سے رسمی اور غیر رسمی اجلاسوں) میں حکومت کی جانب سے ٹی ایل پی کارکنان کو رہا کرنے کے معاہدے پر سخت ناراضی کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: 'ٹی ایل پی ملک بھر سے دھرنے ختم کرنے پر رضامند ہوگئی ہے'

بالخصوص پنجاب پولیس کے افسران نے اس وقت ردِ عمل دیا کہ جب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے معاہدے کی تفصیلات بتاتے ہوئے اس سلسلے میں ایک ویڈیو جاری کی۔

ویڈیو بیان میں وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ حکومت نئے پرانے فورتھ شیڈول کے تمام کارکنان کو رہا کرنے پر رضامند ہوگئی ہے۔

پولیس عہدیدار کے مطابق ٹی ایل پی کی جانب سے احتجاج/ دھرنے کی کال کے نتیجے میں ان کے حامیوں نے پنجاب بھر میں 115 مقامات یا سڑکیں بند کی تھی جس میں لاہور کے 22 مقامات شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک کے سوا دیگر تمام دھرنوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بغیر خون خرابے کے جڑ سے اکھاڑ پھینکا، بلا شبہ اس قسم کے بڑے احتجاج کا نتیجہ سیکڑوں زخمیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی پر سے پابندی ختم ہوجائے گی، علی محمد خان

تاہم فرائض کی انجام دہی میں 4 پولیس اہلکاروں نے اپنی زندگیاں قربان کیں جبکہ دیگر ایک ہزار زخمی ہوئے۔

صوبے بھر میں ٹی ایل پی کارکنوں کی جانب سے متعدد پولیس کی گاڑیاں نذر آتش کی گئیں، عمارتوں پر حملہ ہوا اور اہلکاروں کو یرغمال بنا کر تشدد کیا گیا۔

پولیس افسر کا کہنا تھا کہ 18 اپریل کو 'شرپسندوں' نے نواں کوٹ پولیس اسٹیشن پر حملہ کرکے پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کو زخمی اور اغوا کیا۔

انہوں نے بتایا کہ گھناؤنے جرائم کی سیکڑوں ایف آئی آرز درج کی گئیں لیکن حکومت پولیس فورس کی حالت زار سے بے نیاز نظر آتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست نے ایک 'غیر منطقی معاہدہ کر کے ہماری پولیس فورس کو کالعدم تنظیم کے شدت پسندوں کے سامنے پھینک دیا ہے، اس سے زیادہ ظلم اور استحصال کیا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں