جسٹس عیسیٰ کیس: نظرثانی درخواست دائر کرنے سے قبل سپریم کورٹ رولز کو غلط پڑھا گیا، رجسٹرار

اپ ڈیٹ 28 مئ 2021
اپنے اعتراض میں رجسٹرار آفس نے واضح کیا ہے کہ یہ معاملہ دوسری نظرثانی درخواست کے مانند ہے — فائل فوٹو / سپریم کورٹ ویب سائٹ
اپنے اعتراض میں رجسٹرار آفس نے واضح کیا ہے کہ یہ معاملہ دوسری نظرثانی درخواست کے مانند ہے — فائل فوٹو / سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں حکومت کی نئی نظرثانی درخواست واپس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاق نے 5 درخواستیں دائر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے رولز 1980 کو غلط پڑھا ہے۔

اپنے حکم میں رجسٹرار آفس نے واضح کیا کہ نظرثانی درخواست میں آئین کے آرٹیکل 184 (3)، 187، 188 اور 189 کے تحت 'ازخود' کارروائی کے لیے معلومات فراہم کی گئی ہے، جسے سپریم کورٹ رولز کے آرڈرز 26 اور 33 کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔

درخواست گزاروں میں صدرِ مملکت، وزیر اعظم، وزیرِ قانون و انصاف، وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر اور وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) شامل ہیں۔

اپنے اعتراض میں رجسٹرار آفس نے واضح کیا کہ یہ معاملہ دوسری نظرثانی درخواست کے مانند ہے، اس لیے یہ سپریم کورٹ رولز کے آرڈر 36، رول 9 کے تحت قابل سماعت نہیں جس میں کہا گیا ہے کہ پہلی نظرثانی درخواست نمٹائے جانے کے بعد عدالت میں مزید کوئی نظرثانی درخواست دائر نہیں کی جاسکتی۔

دوسری جانب پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نائب چیئرمین خوشدل خان اور پی بی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین محمد فہیم ولی نے حکومت کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں 26 اپریل کے حکم کے خلاف دوسری نظرثانی درخواست دائر کرنے پر متنبہ کیا۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس میں فیصلے کے خلاف درخواستیں، رجسٹرار نے اعتراض لگا کر واپس کردیں

انہوں نے کہا کہ 'حکومت کے اس اقدام کے خلاف قانونی برادری ملک گیر احتجاج میں بالکل نہیں ہچکچائے گی'۔

خوشدل خان اور فہیم ولی نے حکومت سے نئی نظرثانی درخواست دائر کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ رجسٹرار آفس نے درست اعتراضات اٹھائے ہیں۔

اپنے بیان میں پاکستان بار کونسل نے الزام لگایا کہ صدر، وزیر اعظم اور وفاقی وزیر قانون کا کردار اور سرگرمیاں عدلیہ کی آزادی اور جمہوری عمل کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

بار کونسل نے کہا کہ وہ حکومت کو آزاد عدلیہ کو ہدف بنانے کے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔

رجسٹرار آفس نے اپنے اعتراض میں کہا تھا کہ درخواستوں کے عنوان میں 'ازخود نوٹس' لکھا تھا لیکن مضمون کے کالم میں اسے 'نئی نظرثانی درخواست' کہا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں منظور، ایف بی آر کی تمام کارروائی کالعدم

حکومت نے پانچ درخواستوں کے ساتھ ایک الگ درخواست دائر کی تھی جس میں پیپر کتابیں فائل کرنے کے لیے دو ہفتوں کی مہلت دینے کی استدعا کی گئی تھی لیکن ابتدائی جانچ پڑتال کے بعد رجسٹرار نے درخواستوں میں کئی خامیوں کی نشاندہی کی تھی۔

اس کے علاوہ درخواستوں کے متعدد صفحات پر 5 مرتبہ تضحیک آمیز زبان کا استعمال کیا گیا۔

رجسٹرار آفس نے کہا کہ درخواست گزار، درخواستیں دائر کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت فریقین کو نوٹسز ٹھیک طریقے سے جاری کرنے میں ناکام رہا اس لیے مزید وقت دینے کی استدعا منظور نہیں کی جاسکتی۔


یہ خبر 28 مئی 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں