نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے بارے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی تفصیلات سامنے آرہی ہیں اور معلوم ہورہا ہے کہ یہ جسم میں کس طرح تباہی مچاتا ہے۔

پہلے یہ بات سامنے آئی کہ اس بیماری کے نتیجے میں دل کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، گردے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ دماغی صحت کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔

اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔

اسی طرح ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ اس سے مردوں کی تولیدی صحت پر تباہ کن اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔

مگر کئی ماہ سے دنیا بھر کے طبی ماہرین کے لیے اس وائرس کا ایک اور پہلو معمہ بنا ہوا تھا جسے سائیلنٹ یا ہیپی ہائپوکسیا کا نام دیا گیا۔

اگر آپ کو علم نہ ہو تو جان لیں کہ ہائپوکسیا میں جسمانی بافتوں یا خون میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے مگر کووڈ 19 کے مریضوں میں جو اس کا اثر دیکھنے میں آرہا ہے ایسا پہلے کبھی دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا۔

اب ایک تحقیق میں روشننی ڈالی گئی ہے کہ آخر کیوں کووڈ کے متعدد مریضوں کے خون میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے چاہے انہیں ہسپتال میں داخل نہ بھی پڑے۔

کینیڈا کی البرٹا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ خون میں آکسیجن کی کمی سطح کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے، اس کی وجہ سے ہمارا خیال تھا کہ کووڈ 19 سے خون کے سرخ خلیات بننے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔

اس کی جانچ پڑتال کے محققین نے کووڈ 19 کے 128 مریضوں کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا۔

ان کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے اور آئی سی یو میں داخل ہونے والے افراد کے سات ایسے مریض بی تھے جن میں بیماری کی شدت معتدل تھی مگر انہیں ہسپتال میں داخل ہونا پڑا جبکہ کچھ ایسے تھے جن میں بیماری کی شدت معمولی تھی اور انہیں چند گھنٹوں کے لیے ہسپپتال جانا پڑا۔

محققین نے دریافت کیا کہ بیماری کی شدت میں اضافہ ہونے کے ساتھ خون کے ناپختہ سرخ خلیات دوران خون میں بھرنے لتے ہیں، کئی بار تو ان کی تعداد مجموعی خلیات کے 60 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔

اس کے مقابلے میں صحت مند افراد کے خون میں ان ناپختہ خلیات کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہوتی ہے۔

محققین کے مطابق یہ خلیات بون میرو میں رہتےہ یں اور خون کی گردش میں نظر نہیں آتے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس ان خلیات کے ماخذ پر اثرانداز ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں خون میں ان ناپختہ خلیات کی تداد نمایاں حد تک بڑھ جاتی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ناپختہ خلیات آکسیجن فراہم نہیں کرتے بلکہ یہ کام صرف میچور خلیات کرتے ہیں۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ان ناپختہ خلیات کے کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔

وائرس کے حملے سے یہ خلیات تباہ ہوتے ہیں اور جسم کی دوران خون سے آکسیجن فراہم کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

یہ پہلی بار ہے جب کسی تحقیق میں بتایا گیا کہ خون کے یہ مشتبہ خلیات ایس 2 ریسیپٹر سے رابطے میں ہوتے ہیں جو کورونا وائرس کو صحت مند خلیات بیمار کرنے میں مدد کرتا ہے۔

محققین نے کہا کہ نتائج چونکا دینے والے ہیں اور اس کے ساتھ 2 اہم نتائج کو بھی ثابت کرتے ہیں کہ یہ ناپختہ خون کے سرخ خلیات وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں اور جب وائرس ان کو ختم کرتا ہے تو جسم آکسیجن کی ضرورت پورا کرنے کی کوشش کرنے کے لیے مزید ایسے خلیات بون میرو سے خارج کرتا ہے، مگر وہ بھی وائرس کا ہدف بن جاتے ہیں۔

دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ خون کے یہ سرخ خلیات ایسے مدافعتی خلیات کو دبا دیتے ہیں جو اینٹی باڈیز بناتے ہیں اور وہ وائرس کے خلاف ٹی سیلز کی مدافعت بھی کچلتے ہیں، جس سے صورتحال بدتر ہوجاتی ہے۔

آسان الفاظ میں خون میں خون کے ان سرخ خلیات کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی وائرس کے خلاف مدافعتی ردعمل اتنا ہی کمزور ہوگا۔

اس دریافت کے بعد تحقیقی ٹیم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایسی کونسی ادویات ہیں جو خون کے ان خلیات کی مقدار کو کم کرسکتی ہے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ ورم کش دوا ڈیکسامیتھاسون نہ صرف اس بیماری سے موت کا خطرہ کم کرتی ہے بلکہ یہ خون کے ناپختہ خلیات کے مسئلے کو بھی کم کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ دوا ایس ٹو ریسیپٹر کے ردعمل کو دبتی ہے جس سے خلیات میں بیماری کا امکان کم ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ دوا ان کے میچور ہونے کی رفتار بھی تیز کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ہم یہ نہیں کہتے کہ اس دوا کا استعمال ہر ایک کے لیے کیا جائے بلکہ ہم ایسا میکنزم سامنے لائے ہیں جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ اس دوا سے مریضوں کو کیوں فائدہ ہوتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل اسٹیم سیل رپورٹس میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں