مختلف ممالک میں سائنو ویک ویکسین نے کووڈ کی روک تھام کو کیسے ممکن بنایا؟

02 جون 2021
اس ویکسین کا استعمال پاکستان سمیت متعدد ممالک میں ہورہا ہے — اے ایف پی فوٹو
اس ویکسین کا استعمال پاکستان سمیت متعدد ممالک میں ہورہا ہے — اے ایف پی فوٹو

عالمی ادارہ صحت نے یکم جون کو چینی کمپنی سائنو ویک کی تیار کردہ کووڈ ویکسین کورونا ویک کے ہنگامی استعمال کی منظوری دی۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق یہ ویکسین 18 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو 2 خوراکوں میں استعمال کرائی جائے گی، دونوں خوراکوں میں 2 سے 4 ہفتوں کا وقفہ ہوگا۔

پاکستان میں بھی اس ویکسین کا استعمال سائنوفارم کی ویکسین کے ساتھ کیا جارہا ہے اور زیادہ تر نوجوان افراد میں اس کا استعمال ہورہا ہے۔

اس ویکسین کو استعمال کرنے والے افراد کو جن مضر اثرات کا سامنا ہوتا ہے ان میں انجیکشن کے مقام پر تکلیف اور سوجن سب سے عام ہے۔

زیادہ تر افراد میں یہ اثر معمولی ہوتا ہے جو 2 دن کے اندر ختم ہوجاتا ہے جبکہ کچھ افراد کو ٹرائلز کے دوران تھکاوٹ، ہیضہ اور مسلز کی کمزوری کا بھی سامنا ہوا مگر ایسے افراد کی شرح بہت کم تھی۔

اس ویکسین کے ٹرائل انڈونیشیا، برازیل اور ترکی میں ہوئے تھے اور حیران کن طور پر ہر ملک میں افادیت کی شرح مختلف تھی۔

برازیل میں جنوری میں ٹرائل کے آخری مرحلے میں اس کے نتائج سامنے آئے جس میں اسے مجموعی طور پر 50.38 فیصد تک مؤثر قرار دیا گیا تھا۔

ٹرائل کے مطابق یہ ویکسین بیماری کی معمولی شدت کے کیسز روکنے میں 78 فیصد اور معتدل و سنگین کیسز کی روک تھام میں سو فیصد موثر رہی۔

اس کے مقابلے میں انڈونیشیا میں بھی اس ویکسین کے ٹرائل ہوئے تھے اور نتائج میں اسے بیماری کی روک تھام کے لیے 65.3 فیصد موثر قرار دیا گیا تھا جبکہ ترکی میں ہونے والے ایک اور ٹرائل میں وہ 83.5 فیصد مؤثر قرار دی گئی۔

مگر حقیقی دنیا میں اس ویکسین کی افادیت ٹرائلز کے مقابلے میں زیادہ رہی ہے۔

کئی ممالک میں اس ویکسین کے استعمال کو ترجیح دی جارہی ہے اور ان کی جانب سے بیماری کی روک تھام کے حوالے سے جو ڈیٹا جاری کیا گیا وہ چونکا دینے والا ہے۔

چلی

اپریل کے وسط میں جنوبی امریکی ملک چلی کی جانب سے ایک کروڑ سے زیادہ افراد پر مشتمل تحقیق کے نتائج جاری کیے گئے۔

تحقیق میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 25 لاکھ کو ویکسین کی دونوں خوراکیں جبکہ 15 لاکھ کو 2 فروری سے یکم اپریل کے دوران ایک خوراک دی گئی تھی۔

ویکسین کی دوسری خوراک دینے کے 14 دن بعد بیماری کی تشخیص کو کورونا کیسز میں شمار کیا گیا تھا۔

چلی کی وزارت صحت کے مطابق اس کے استعمال سے کورونا سے ہسپتال میں داخلے کا خطرہ 85 فیصد، آئی سی یو میں پہنچنے کا خطرہ 89 فیصد اور موت کا امکان 80 فیصد کم ہوجاتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ویکسین کے استعمال سے 70 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کے ہسپتال میں داخلے کی شرح میں بہت تیزی سے کمی آئی۔

چلی میں تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ویکسین کی ایک خوراک استعمال کرنے والے افراد میں بیماری کا خطرہ 2 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

انڈونیشیا

انڈونیشیا میں اس ویکسین کا استعمال کئی ماہ سے ہورہا ہے اور دارالحکومت جکارتہ میں جنوری سے مارچ 2021 تک ایک لاکھ 28 ہزار سے زیادہ طبی ورکرز میں ویکسین کی افادیت کا جائزہ ایک تحقیق میں لیا گیا۔

اس تحقیق کے دوران دریافت کیا گیا کہ کورونا ویک نامی ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے 7 دن بعد سے ان افراد کو کووڈ سے موت سے 98 فیصد اور ہسپتال میں داخلے سے 96 فیصد تحفظ ملا۔

ویکسین سے ان ہیلتھ ورکرز کو 94 فیصد تک علامات والی بیماری سے تحفظ ملا، جو انتہائی غیرمعمولی نتیجہ ہے، کیونکہ ویکسین کے ٹرائل میں اسے 50 سے 80 فیصد تک مؤثر قرار دیا گیا تھا۔

انڈونیشین تحقیق میں ویکسین استعمال کرنے والے افراد کا موازنہ ویکسین استعمال نہ کرنے والے افراد سے کرکے ویکسین کی افادیت کا تعین کیا گیا۔

یوروگوئے

اس جنوبی امریکی ملک میں بھی کورونا ویک پر انحصار کیا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں وہاں کووڈ سے اموات کی شرح میں 97 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی۔

یوروگوئے میں یکم مارچ سے ویکسینیشن کا آغاز ہوا تھا اور وہاں 8 فیصد سے زیادہ افراد کو کورونا ویک کا استعمال کرایا گیا۔

وہاں کی وزارت صحت کی جانب سے جاری ابتدائی ڈیٹا 8 لاکھ 62 ہزار افراد پر مشتمل تھا جن کو ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرائی گئی تھیں۔

ان میں سے 7 لاکھ 12 ہزار کو کورونا ویک جبکہ باقی افراد کو فائزر/بائیو این ٹیک ویکسین دی گئی۔

نتائج کے مطابق فائزر ویکسین بیماری کی روک تھام میں 75 فیصد، آئی سی میں داخلے کی روک تھام میں 99 فیصد اور اموات کی روک تھام میں 80 فیصد مؤثر ثابت ہوئی۔

اس کے مقابلے میں کورونا ویک کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد میں بیماری کا خطرہ 57 فیصد، آئی سی میں داخلے کا 95 فیصد اور اموات کا 97 فیصد تک کم ہوگیا۔

حکومت کے مطابق دونوں ویکسینز کے نتائج کا براہ راست موازنہ کرنا درست نہیں کیونکہ یوروگوئے میں فائزر ویکسین ان افراد کو دی گئی جن کو وائرس سے زیادہ خطرہ لاحق تھا۔

وزارت صحت نے واضح کیا کہ نتائج ابتدائی ہیں اور ابھی مزید ڈیٹا کا تجزیہ کرنا باقی ہے۔

برازیل

برازیل میں ایک قصبے میں کورونا ویک کے استعمال کے اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کے ابتدائی مئی کے آخر میں جاری کیے گئے تھے۔

برازیل کے بوتانتین انسٹیٹوٹ کی جانب سے 45 ہزار آبادی کے ایک قصبے میں ویکسین کے استعمال کے اثرات کا عبوری ڈیٹا جاری کیا۔

اس تحقیق میں ساؤ پاؤلو کے نواح میں واقع قصبے سیرانا کے 27 ہزار بالغ افراد (قصبے کی بالغ آبادی کا 96 فیصد حصہ) کو فروری کے وسط سے کورونا ویک کی 2 خوراکیں دینے کا عمل شروع ہوا تھا۔

یہ عمل 11 اپریل کو مکمل ہوا اور مکمل ویکسینیشن کے 5 ہفتوں بعد وہاں کووڈ کے علامات والے کیسز میں 80 فیصد جبکہ ہسپتالوں میں داخلے کی شرح میں 86 فیصد کی ڈرامائی کمی دیکھنے میں آئی۔

اس تحقیق کو پراجیکٹ سیرانا کا نام دیا گیا تھا جس میں حقیقی دنیا میں ویکسین کے اثرات کا جائزہ لیا گیا اور اس میں عندیہ دیا گیا کہ بالغ افراد کی اکثریت کی ویکسینیشن سے ویکسین استعمال نہ کرنے والی اقلیت کو بھی تحفظ مل سکتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ قصبے کی آبادی کو موازنے کے لیے 4 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا اور بیشتر بالغ افراد کی ویکسینیشن اپریل تک مکمل کرلی گئی۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ کورونا کی وبا کو اس صورت میں کنٹرول کیا جاسکتا ہے جب کسی آبادی کے تین چوتھائی حصے کو ویکسین فراہم کردی جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات سب سے اہم ہے کہ ہم کس طرح سو فیصد آبادی کی ویکسینیشن کے بغیر کیسے وبا کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔

محققین کے مطابق ویکسنیشن اس قصبے میں کووڈ کے باعث اموات کی شرح میں 95 فیصد کمی آئی جبکہ ہسپتال میں داخلے اور علامات والے کیسز کی شرح بالترتیب 86 اور 80 فیصد تک گھٹ گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں