لاک اپ میں نوعمر لڑکے کی ہلاکت، سی ٹی ڈی کے 4 عہدیداروں کے خلاف مقدمہ درج

اپ ڈیٹ 13 جون 2021
پولیس حکام نے کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس معاملے میں انصاف ہوگا—فائل فوٹو: اے ایف پی
پولیس حکام نے کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس معاملے میں انصاف ہوگا—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی تحویل میں نو عمر لڑکے کی موت کے بعد محکمے کے 4 عہدیداروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرکے ان کو گرفتار کرلیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متوفی کی شناخت 15 سالہ حسن کے نام سے ہوئی ہے جو راولپنڈی کی ضیا کالونی کا رہائشی تھا۔

مزید پڑھیں: ایف آئی اے کی تحویل میں ایک شخص کی ہلاکت، تحقیقاتی ٹیم ملتان پہنچ گئی

متاثرہ افراد کے لواحقین اور پڑوسیوں نے آئی جے جے شاہراہ پر احتجاج کیا اور کئی گھنٹوں تک ٹریفک بلاک کردی۔

مظاہرین نے قتل میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے عہدیداروں کے خلاف مقدمے کے اندراج اور حقائق کے لیے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔

ابتدائی طور پر پولیس نے بتایا کہ حسن کو شمس کالونی کی حدود میں دو پولیس اہلکاروں پر حملے اور ان کے قتل کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا تھا لیکن بعد میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ جی 13 میں پولیس اہلکار کے قتل اور دو افراد کو زخمی کرنے کے شبہ میں نو عمر لڑکے کو حراست میں لیا گیا تھا۔

پولیس کے ذرائع نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ لڑکے کو تفتیشی ونگ کی ٹیم نے شک کے الزام میں اٹھایا۔

وہ سی آئی اے کی تحویل میں رہا جہاں ایک اے ایس آئی اور دیگر عہدیداروں نے ان سے تفتیش کی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: پولیس حراست میں ملزم کی پراسرار ہلاکت، تھانہ ایس ایچ او معطل

7 مارچ کو جی ۔13 میں حملے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور دو دیگر زخمی ہوگئے تھے، اسی طرح 3 جون کو ایک اور حملے میں شمس کالونی میں دو پولیس اہلکار شہید ہوگئے تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ سی آئی اے عملے نے 3 دن تک اس لڑکے سے پوچھ گچھ کی اور اسے بے قصور ہونے پر رہا کردیا تھا۔

اے ایس آئی اور دیگر عملہ بھی لڑکے کے گھر گئے اور اس کی والدہ کو بتایا کہ وہ بے قصور ہے۔

سینئر پولیس افسران کو بھی لڑکے کی بے گناہی سے آگاہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ تقریباً 3 دن پہلے لڑکے اور اس کی والدہ کو سی آئی اے سینٹر طلب کیا گیا جہاں سی ٹی ڈی نے انہیں تحویل میں لے لیا اور اگلے دن سی ٹی ڈی حکام نے لڑکے کی والدہ کو رہا کردیا۔

بھارہ کہو میں سی ٹی ڈی کی عمارت میں لڑکے سے 3 دن تفتیش کی گئی تاہم جمعہ کے روز اس کی طبیعت بگڑ گئی اور اسے تیز بخار ہوگیا۔

ذرائع کے مطابق کچھ گھنٹوں کے بعد عہدیداروں نے ایک ڈاکٹر کو سی ٹی ڈی لاک اپ میں لڑکے کے معائنے کے لیے بلایا اور ڈاکٹر نے لڑکے کے سر پر لگنے والی چوٹ کو ابتدائی طبی امداد دی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر نے سی ٹی ڈی کے عملے کو مشورہ دیا کہ وہ اسے فوری طور پر ہسپتال منتقل کریں کیونکہ لڑکے کی جان کو خطرہ ہے لیکن انہوں نے طبی مشورے کو نظرانداز کیا۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ بعد میں لڑکے نے لاک اپ میں دم توڑ دیا جس کے بعد ڈاکٹر کو وہاں لایا گیا اس نے لڑکے کو مردہ قرار دے دیا۔

مزید پڑھیں: حراست کے دوران لڑکے کی موت پر جووینائل جسٹس ایکٹ کے نفاذ کا مطالبہ

اہل خانہ کے مطالبے پر سی ٹی ڈی تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر، تفتیشی افسر اور بھارہ کہو تھانے کے دو کانسٹیبلوں کے خلاف دفعہ 322 کے تحت مقدمہ درج کردیا گیا۔

لیکن اہل خانہ اور دیگر افراد نے احتجاج کیا تو پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے افسران وہاں پہنچے اور ایف آئی آر میں موجود دفعہ 332 کو دفعہ 302 (قتل) کے ساتھ تبدیل کرنے پر اتفاق کیا۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد (جنرل) نے مظاہرین کو یقین دلایا کہ واقعے کی تحقیقات اور حقائق کو سامنے لانے کے لیے عدالتی تحقیقات کا حکم دیا جائے گا۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (آپریشنز) افضل احمد کوثر سے رابطہ کرنے پر ڈان کو بتایا گیا کہ لڑکے کے قتل کی تحقیقات میرٹ پر کی جائیں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس معاملے میں انصاف ہوگا۔

افضل احمد نے کہا کہ ایس ایس پی کی تحقیقات بھی حقائق کو منظر عام پر لانے میں مدد گار ثابت ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں