حراست کے دوران لڑکے کی موت پر جووینائل جسٹس ایکٹ کے نفاذ کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 22 مارچ 2021
مقتول کے والد نے الزام لگایا کہ ان کے بیٹے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ --فائل فوٹو: رائٹرز
مقتول کے والد نے الزام لگایا کہ ان کے بیٹے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ --فائل فوٹو: رائٹرز

پشاور میں 14 مارچ کو پولیس لاک اپ کے اندر نوعمر لڑکے کی موت کے بعد ملک بھر میں جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 (نابالغوں کے لیے موجود قانون) کے نفاذ کا مطالبہ شدت اختیار کرگیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مغربی کینٹ پولیس اسٹیشن کے لاک اپ کے اندر لڑکے نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی تھی۔

مزید پڑھیں: کراچی کے بچہ جیل میں ضمانت کی رقم نہ ہونے کے باعث قید طویل تر

خاص طور پر سوشل میڈیا پر عوامی رد عمل کے بعد سٹی پولیس چیف نے مذکورہ تھانے کے عملے کو معطل کردیا جبکہ مقتول لڑکے کے والد کی جانب سے درج شکایت پر ایس ایچ او دوست محمد اور ایک محرر اسمعیل کو گرفتار کرلیا گیا۔

شکایت کنندہ نے دعویٰ کیا کہ اسے تھانے سے فون آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اس کے بیٹے کو گرفتار کرلیا گیا کیونکہ اس کے پاس اپنی موٹرسائیکل کی رجسٹریشن کے دستاویزات نہیں تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب وہ تھانے پہنچے تو اسے 3 گھنٹے انتظار کرنا پڑا اور آخر کار پولیس نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے خودکشی کرلی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: توہین مذہب کے ملزم کے مشتبہ قاتل کا مقدمہ جووینائل قانون کے تحت چلانے کا حکم

مقتول کے والد نے الزام لگایا کہ ان کے بیٹے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص نے لاک اپ کے داخلی دروازے کے قریب خودکشی کرلی۔

پولیس کی رپورٹ کے مطابق طالب علم کو تاجروں اور بازار کے گارڈز نے بہت اکسایا اور اس کے نتیجے میں ایک معمولی جھگڑے کے دوران طالبعلم نے دکان دار پر اپنی پستول تان لی تھی۔

پولیس نے دعویٰ کیا ملزم کے خلاف اسلحہ ایکٹ کی دفعہ 15 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا اور اسے لاک اپ میں نظربند کردیا گیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے بعد جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کے نفاذ کا مطالبہ سامنے آیا۔

مزید پڑھیں: مردان اور ایبٹ آباد میں 'چائلڈ پروٹیکشن کورٹس' کا افتتاح

ماہرین نے متعدد سوالات اٹھائے کہ لڑکا نابالغ تھا اسے جووینائل ایکٹ کے برخلاف لاک اپ میں رکھا گیا جبکہ اسے کسی نگراں ادارے میں رکھنا چاہے تھا۔

تاہم صوبے میں کہیں بھی ایسا آبزرویشن سینٹر قائم نہیں کیا گیا جہاں جرم کے مرتکب کم عمر بچوں کو رکھا جاسکے۔

مذکورہ معاملے سے واضح گیا کہ نہ صرف پولیس بلکہ دیگر اسٹیک ہولڈرز خاص طور پر خیبر پختونخوا حکومت نے بھی موجودہ قانون کے نفاذ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

جسٹس سسٹم آرڈیننس 2000 کو جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ (جے جے ایس اے) 2018 سے تبدیل کردیا گیا تھا جو جنرل (ر) پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے دوران نافذ کیا گیا تھا۔

ایکٹ کے سیکشن 5 کے مطابق گرفتار نابالغ کو ایک آبزرویشن سینٹر میں رکھا جائے گا اور تھانے کا انچارج جلد از جلد نو عمر اور متعلقہ پروبیشن افسر کے سرپرست کو مطلع کرے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں