'دھوپ کی دیوار' پر اٹھائے جانے والے اعتراضات پر عمیرہ احمد کی وضاحت

اپ ڈیٹ 19 جون 2021
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے تناظر میں بنائی گئی ویب سیریز 25 جون کو ریلیز ہوگی—فوٹوز: اسکرین شاٹ
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے تناظر میں بنائی گئی ویب سیریز 25 جون کو ریلیز ہوگی—فوٹوز: اسکرین شاٹ

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور وہاں 2019 میں ہونے والے پلوامہ حملے کے تناظر میں بنائی جانے والی ویب سیریز 'دھوپ کی دیوار' کا ٹریلر ریلیز چند روز قبل ریلیز کیا گیا تھا۔

یہ ویب سیریز 25 جون کو بھارتی اسٹریمنگ پلیٹ فارم زی فائیو پر ریلیز ہورہی ہے جس میں مقبول ترین شوبز جوڑی کا اعزاز رکھنے والے احد رضا میر اور سجل علی مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔

معروف ڈراما اور ناول نگار عمیرہ احمد کی تحریر کردہ کہانی پر بنی ویب سیریز 'دھوپ کی دیوار' کی ہدایات حسیب حسن نے دی ہیں۔

مزید پڑھیں: ویب سیریز 'دھوپ کی دیوار' کا ٹیزر جاری

حقیقی واقعات سے متاثر ہوکر بنائی گئی ویب سیریز کی کہانی پاکستان اور بھارت کے 2 خاندانوں کے گرد گھومتی ہے۔

ویب سیریز میں دراصل مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی خلاف ورزیوں پر شہید ہونے والے اہلکاروں کے خاندان کے درد کو سامنے لانے کی ایک کوشش ہے۔

تاہم 'دھوپ کی دیوار' کا ٹیزر اور بعدازاں ٹریلر ریلیز ہونے کے بعد سے اس کی کہانی تحریر کرنے والی معروف ناول و ڈراما نگار عمیرہ احمد کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

حالانکہ یہ بھارتی اسٹریمنگ پلیٹ فارم زی فائیو پر ریلیز ہونے والی پہلی پاکستانی ویب سیریز نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ویب سیریز 'دھوپ کی دیوار' کا ٹریلر ریلیز

اس سے قبل 2020 میں 'چڑیلز' اور 'ایک جھوٹی لو اسٹوری' ریلیز ہوئی تھیں اور دونوں ہی نے بہت مقبولیت حاصل کی تھی۔

'ایک جھوٹی لو اسٹوری' عمیرہ احمد کی پہلی ویب سیریز تھی اس سے قبل وہ صرف ناولز اور ڈراموں تک ہی محدود تھیں اور ان کی یہ ویب سیریز بھی بہت مقبول ہوئی تھی۔

اگرچہ چڑیلز کی ریلیز پر بھی یہ اعتراض سامنے آیا تھا کہ بھارتی پلیٹ فارم کے بجائے کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم کا انتخاب کیا جانا بہتر تھا لیکن 'دھوپ کی دیوار' کی ریلیز سے قبل ہی اس کے موضوع کی بنا پر ایک بھارتی پلیٹ فارم پر ریلیز کو کچھ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ناپسند کیا جارہا ہے۔

سوشل میڈیا پر صارفین کی تنقید اور کچھ اعتراضات کے بعد 'دھوپ کی دیوار' کی لکھاری عمیرہ احمد نے ایک طویل وضاحتی بیان میں تمام اعتراضات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

عمیرہ احمد نے اپنے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ویب سیریز 'دھوپ کی دیوار' سے متعلق بیان جاری کیا اور اپنی پوسٹس کے کیپشن میں لکھا کہ ٹریلر ریلیز کیے جانے کے بعد سے 'دھوپ کی دیوار' کے بارے میں عام طور پر اور بالخصوص عمیرہ احمد کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔

پوسٹ میں کہا گیا کہ 'عمیرہ احمد نے اس حوالے سے اٹھائے گئے تمام اعتراضات کا جواب دے دیا ہے، اُمید ہے کہ اس سے بہت سی چیزیں واضح ہوجائیں گی'۔

مزید پڑھیں: سجل اور احد کی ویب سیریز 'دھوپ کی دیوار' کی پہلی جھلک

کچھ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ عمیرہ احمد نے بھارتی چینل کے لیے 'دھوپ کی دیوار' کیوں لکھا؟ طویل وضاحتی بیان میں عمیرہ احمد نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کسی بھارتی چینل کے لیے نہیں لکھا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ 'دھوپ کی دیوار'، 'الف'، 'ایک جھوٹی لو اسٹوری' ایک ساتھ 2018 میں گروپ ایم کے ساتھ سائن کیے تھے جو ایک پاکستانی کانٹینٹ کمپنی ہے اور اسی کمپنی کے ساتھ انہوں نے پاک بحریہ کے لیے بنائی جانے والی ٹیلی فلم 'لعل' بھی سائن کی تھی۔

'تحریر کے نشر ہونے کا فیصلہ پروڈیوسر کرتا ہے'

عمیرہ احمد نے بتایا کہ گروپ ایم نے 2 پروجیکٹس 'الف' اور 'لعل' نجی ٹی وی چینل جیو جبکہ دیگر 2 پروجیکٹس 'ایک جھوٹی لو اسٹوری' اور 'دھوپ کی دیوار' کو زی فائیو، نیٹ فلیکس سمیت بین الاقوامی پلیٹ فارمز کو بیچنے کی کوشش کی اور زی فائیو کی دلچسپی کی وجہ سے انہیں بیچ دیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ مصنف کی تحریر کہاں نشر ہوگی اس کا فیصلہ پروڈیوسر یا چینل کرتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ 'دھوپ کی دیوار' کی کہانی اس وقت لکھی گئی جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات اتنے خراب نہیں تھے اور نہ ہی کشمیر میں جو آئینی طور پر حالیہ تبدیلیاں کی گئی ہیں، وہ ہوئی تھیں۔

'دھوپ کی دیوار، ایک سماجی المیے کی کہانی ہے'

علاوہ ازیں رائٹر نے 'دھوپ کی دیوار' کو ایک لَو اسٹوری قرار دینے سے متعلق کہا کہ یہ محبت کی کہانی نہیں بلکہ ایک سماجی المیہ ہے۔

جسے ان لوگوں کے حوالے سے لکھا گیا جن کے خاندانوں کا کوئی فرد اپنے ملک و قوم کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کردیتا ہے اور پھر انہیں کن چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔

عمیرہ احمد کے مطابق پاکستان اور بھارت کے باہمی مسائل کے بارے میں بات کرنے کے لیے ہمیں لَو اسٹوری کی ضرورت نہیں ہے۔

'متنازع موضوع پر لکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ مصنف غدار ہے'

'امن کی آشا' کی حامی یا اسے فروغ دینے سے متعلق تبصروں پر عمیرہ احمد نے کہا کہ امن کی بات کرنا غلط نہیں، ہمارا تو دین ہی امن و سلامتی کا دین ہے اور جنگ کی بات کرنا بھی غلط نہیں اگر اس جنگ کا نتیجہ نکلتا ہو۔

انہوں نے کہا کہ میں سیالکوٹ سے تعلق رکھتی ہوں جہاں 73 سال سے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ ہورہی ہے، فوجی، بچے اور خواتین مارے جارہے ہیں، جنگیں ایک یا 2 دن ہوتی ہیں، 73 سال نہیں نہ پاکستان اس کا متحمل ہوسکتا ہے اور نہ ہی بھارت۔

یہ بھی پڑھیں: پلوامہ حملے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر ’دھوپ کی دیوار‘

علاوہ ازیں ناول و ڈراما نگار نے دو قومی نظریہ بھلادینے کے الزامات کو بھی مسترد کیا اور کہا کہ چھوٹی سی بات پر کسی کو کافر یا غدار کہنے کا رواج اب ختم ہوجانا چاہیے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ بغیر کسی ثبوت کے ان پر سنگین الزامات لگائیں، اگر رائٹر کسی متنازع موضوع پر لکھ رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غدار ہے۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے 'دھوپ کی دیوار' لکھ کر مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کو فراموش کرنے کے الزامات کو بھی مسترد کیا۔

'اس موضوع کیلئے بھارتی پلیٹ فارم کا انتخاب درست ہے'

'دھوپ کی دیوار' بھارتی پلیٹ فارم پر نشر ہونے سے متعلق عمیرہ احمد نے کہا کہ یہ چیزیں لکھاری نہیں بلکہ پروڈکشن ہاؤس یا چینل طے کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'میں ذاتی طور پر سمجھتی ہوں اس موضوع کے لیے زی کا پلیٹ فارم بالکل صحیح ہے، کیونکہ اگر بھارتی شائقین سے بات کرنی ہے تو بھارتی پلیٹ فارم کے ذریعے ہی کرسکتی ہوں'۔

عمیرہ احمد کا مزید کہنا تھا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر بات کی جارہی ہے تو مقامی چینل پر بات کرکے اس کی آڈینس محدود ہوجاتی۔

مستقبل کے پروجیکٹس

انہوں نے پاکستان کے مقامی چینلز کے لیے کام نہ کرنے سے متعلق اعتراض پر کہا کہ جولائی میں نجی چینل ہم ٹی وی پر ان کے ناول 'ہم کہاں کے سچے تھے' کو ڈرامائی شکل میں پیش کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں ستمبر میں نجی چینل اے آر وائے سے آئی ایس پی آر کے لیے لکھا جانے والا سیریل نشر ہوگا جبکہ جیو ٹی وی کے لیے لکھا گیا ایک سیریل رواں برس کے اواخر یا آئندہ سال کے اوائل میں نشر ہوگا۔

اس کے ساتھ ہی عمیرہ احمد نے واضح کیا کہ وہ اب جس قسم کے مواد پر لکھنا چاہتی ہیں اس کا اسکوپ صرف ویب پلیٹ فارم ہے لیکن اس وقت بین الاقوامی معیار کا حامل کوئی پاکستانی پلیٹ فارم نہیں جہاں ایسے پراجیکٹس کیے جاسکیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں