افغانستان کے شمالی صوبے قندوز میں جاری لڑائی کے دوران 28 افراد ہلاک اور 290 شہری زخمی ہوگئے۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق ہسپتال کے عہدیداروں نے بتایا کہ لڑائی میں عام شہری بھی مارے گئے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں کشیدگی میں اضافہ، آرمی چیف اور دو وزرا تبدیل

قندوز میں قائم ہسپتال کے سربراہ احسان اللہ فاضلی نے بتایا کہ گزشتہ 3 روز کے دوران مقامی دو ہسپتالوں میں 28 لاشیں اور 290 زخمیوں کو لایا گیا، جن میں اکثریت بچوں، خواتین اور بزرگوں کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہر میں لڑائی تاحال جاری ہے اور ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان بھر میں کشیدگی میں اضافہ ہوا لیکن شمالی افغانستان میں حالات زیادہ خراب ہیں جہاں جنگجوؤں کی جانب سے کارروائیوں میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ جنوبی علاقوں میں ان کو بڑی حد تک کنٹرول حاصل ہے۔

خیال رہے کہ رواں برس اپریل میں امریکا کی جانب سے فوجی انخلا کے اعلان کے بعد افغانستان میں طالبان کی جانب سے کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور انہوں نے کئی علاقوں کی جانب پیش قدمی کی ہے۔

افغان حکومتی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ دوحہ امن مذاکرات پہلے ہی تعطل کا شکار ہیں جبکہ طالبان نے کہا تھا کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔

دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی امریکا کے دورے پر واشنگٹن پہنچ گئے ہیں، ان کے ساتھ افغان مذاکراتی عمل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ بھی موجود ہیں جہاں وہ امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات کریں گے اور فوجیوں کے انخلا کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں شدید لڑائی، ایک دن میں 150 اہلکار ہلاک و زخمی

اقوام متحدہ کے نمائندے برائے افغانستان نے رواں ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان نے 370 میں سے 50 سے زائد اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے اور صوبائی دارالحکومتوں کا کنٹرول سنبھالنے کی پوزیشن میں ہیں۔

ماہرین نے خبردار کیا کہ افغانستان میں سوویت یونین کے انخلا کے بعد ہونے والی خانہ جنگی امریکی انخلا کے بعد دوبارہ شروع ہوسکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز دارالحکومت کابل کے مضافات میں طالبان کے خلاف سیکڑوں مسلح افراد جمع ہوئے تھے۔

دوسری جانب رپورٹس ہیں مغربی صوبے ہرات میں 130 طالبان جنگجوؤں نے قبائلی عمائدین کی مدد سے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

گورنر ہرات عبدالصبور قانی کا اس حوالے سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ سمجھ گئے ہیں کہ افغان حکومت کے ساتھ طالبان کی جنگ غیر قانونی ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہتھیار ڈالنے والے 130 جنگجوؤں کا تعلق ان کے گروپ سے نہیں ہے اور کہا کہ یہ تقریب ایک پروپیگنڈا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں