وزرا کی عدم موجودگی سے قومی اسمبلی کی کارروائی متاثر

اپ ڈیٹ 14 جولائ 2021
ایوان میں صرف پارلیمانی سیکریٹری برائے داخلہ شوکت علی موجود تھے —فائل فوٹو / ٹوئٹر
ایوان میں صرف پارلیمانی سیکریٹری برائے داخلہ شوکت علی موجود تھے —فائل فوٹو / ٹوئٹر

اسلام آباد: وزرا اور پارلیمانی سیکریٹریز کی غیر موجودگی میں قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں زیادہ تر آئٹم مؤخر کردیے گئے، وہیں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے حکومت اور اپوزیشن اراکین کے درمیان آزاد کشمیر انتخابات پر سخت جملوں کے تبادلے کے بعد اجلاس کی کارروائی عجلت میں ملتوی کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اجلاس ملتوی کرنے سے قبل قاسم سوری نے وفاقی وزرا اور پارلیمانی سیکریٹریز کو ان کی موجودگی یقینی بنانے اور قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی کو سنجیدگی سے لینے کی ہدایت کی۔

جب اسپیکر نے یہ رولنگ دی اس وقت ایوان میں صرف پارلیمانی سیکریٹری برائے داخلہ شوکت علی موجود تھے جبکہ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان، پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل کی جانب سے آزاد کشمیر انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق تنقید کے بعد چلے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ اجلاس میں وزرا کی غیرحاضری، وزیراعظم سے جواب طلب

دلچسپ بات یہ ہے کہ وزرا کی غیر موجودگی کی نشاندہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن قومی اسمبلی نزہت پٹھان نے کی، ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کابینہ اراکین اور پارلیمانی سیکریٹریز نجی اراکین کے دن پر غیر حاضر رہے حالانکہ کابینہ اجلاس منگل کے روز جلدی ختم ہوگیا تھا۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اجلاس کے لیے 84 نکاتی ایجنڈا جاری کیا تھا جس میں 17 نجی اراکین کے متعارف کروائے جانے والے بل بھی شامل تھے، لیکن صرف 7 بل پیش کیے گئے جبکہ بقیہ ایجنڈا ملتوی کرنا پڑا۔

اس وقت وفاقی کابینہ 51 اراکین پر مشتمل ہے جس میں 27 وزرا، 4 وزرائے مملکت، 4 مشیر اور 16 وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہیں۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی اجلاس: حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کی بدکلامی اور جھگڑا

اس کے علاوہ 39 پارلیمانی سیکریٹریز ہیں جو وزرا کی غیر موجودگی میں منتخب نمائندوں کے سوالات کا جواب دینے کے ذمہ دار ہیں، جس سے 342 اراکین کے ایوانِ زیریں میں جواب دینے والے افراد کی تعداد 90 ہوجاتی ہے۔

پانی کی قلت

قبل ازیں حکومتی اراکین کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اراکین نے صوبہ پنجاب اور سندھ میں پانی کی قلت پر تشویش کا اظہار کیا اور الزام عائد کیا کہ مرکز، صوبوں کو متفقہ فارمولے کے تحت پانی کی فراہمی میں ناکام ہوگیا ہے۔

یہ معاملہ اس وقت بحث کا حصہ بنا جب پی ٹی آئی کے خواجہ شیراز محمود نے تواجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعے پنجاب اور سندھ میں پانی کی قلت کا معاملہ اٹھایا۔

ڈپٹی اسپیکر نے مذکورہ معاملہ متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا اور پارلیمانی سیکریٹری برائے آبی وسائل صالح محمد کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

آزاد کشمیر انتخابات

اجلاس میں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی خرم دستگیر نے کہا کہ مرکز کی مداخلت کے بغیر آزادانہ و شفاف انتخابات کروانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ وہ دنیا کو یہ دکھا سکیں کہ پاکستان نے کشمیر کے عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت اور اپوزیشن نے اسمبلی کی کارروائی بہتر طریقے سے چلانے پر اتفاق کرلیا، پرویز خٹک

مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی نے وفاقی وزرا کے اس اعلان پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ کامیابی کے مارجن کے حساب سے انتخابی حلقوں میں رقم خرچ کریں گے۔

خرم دستگیر نے کہا کہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے اگر یہ اس قسم کے کام کریں گے تو مقبوضہ کشمیر میں حلقہ بندیوں پر بھارت کی کس طرح مذمت کر سکیں گے۔

جس کے جواب میں وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے ایک جذباتی تقریر کی اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ان کے دورِ حکومت میں کشمیر کے عوام کے لیے کچھ نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں