بلوچستان کے مسئلے پر مشترکہ کمیٹی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 14 جولائ 2021
سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ بلوچستان کو ڈی کالونائیز کرنے کی ضرورت ہے — فائل فوٹو: ڈان
سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ بلوچستان کو ڈی کالونائیز کرنے کی ضرورت ہے — فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما و سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ بلوچستان سیاسی حل کے لیے نوحہ کناں ہے اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پر زور دیا کہ اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے مشترکہ کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ میں نکتہ اعتراض پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'بلوچستان میں رقم فراہم کرنا حل نہیں ہے، ریاست کو اس بات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا غلطی بار بار کر رہی ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیک ہولڈرز کو کمیٹی میں بلانا چاہیے اور ان کی شکایات کو دور کرنے کا راستہ تلاش کرنے کے لیے صبر سے سماعت کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں مفاہمت کیلئے شاہ زین بگٹی وزیراعظم کے معاون خصوصی مقرر

سابق چیئرمین سینیٹ کے یہ ریمارکس وزیر اعظم عمران خان کے اس اعلان کے کچھ روز بعد سامنے آئے کہ ان کی حکومت ناراض بلوچ قبائل سے بات چیت کرے گی۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ یہ ادراک کرنا پڑے گا کہ بلوچ اور پختونوں کو بندوق کی نوک کے زور پر محکوم نہیں کیا جاسکتا۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلوچستان کو ڈی کالونائیز کرنے کی ضرورت ہے۔

بلوچستان کے مسئلے کو خطے میں ابھرتی ہوئی صورتحال سے منسلک کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'افغان صورتحال کے اثرات پاکستان اور اس کی اندرونی پالیسی پر پڑیں گے اور ہمیں خامیوں کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے جس میں مذہبی انتہا پسندی، فرقہ پرستی کے علاوہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا بالخصوص قبائلی اضلاع کی صورتحال شامل ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان آج اس نہج تک کیسے پہنچا؟

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بلوچستان کو معاشی پیکجز دیے گئے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے، حتیٰ کہ میری جماعت نے بھی آغاز حقوق بلوچستان پیکج کا اعلان کیا تھا جس کے سیاسی اور معاشی اثرات ہوتے لیکن وہ بھی ناکام ہوگیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کنٹرولڈ انتخابات اور مارو اور پھینک دو کی پالیسی مسئلے کا حل نہیں ہے'۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ریاست مخالف وہ عناصر جو ملک کی سالمیت کے خلاف بات کرتے اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں ان پر مقدمہ چلا کر سزا دینی چاہیے، اس میں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔'

پی پی پی رہنما نے زور دیا کہ وفاقی یونٹس کو صوبائی خود مختاری دینے کی ضرورت ہے اور صوبوں کو قدرتی وسائل میں 50 فیصد حصہ دے کر آئین کی دفعہ 172 (2) کو فعال بنایا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: بجٹ میں ترقیاتی منصوبے نہ رکھنے پر اپوزیشن کا احتجاج، قومی شاہراہ بلاک

وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے بجٹ سے متعلق بیان کا حوالہ دیتے ہوئے رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کو صوبے کا بجٹ بنانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

ان کے جواب میں سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت وہ پہلی حکومت ہے جس نے بلوچستان کی معاشی ترقی کے لیے فیصلے لیے، کیوں کہ گزشتہ حکومت میں صوبے کے لیے مختص رقم کا غلط استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 'صوبے کی منتخب حکومت اور اس کے عوام کے بغیر بلوچستان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت صوبے میں 7 کھرب 31 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کرنے والی ہے، حکومت صوبے کی محرومی دور کرنے اور اس کے عوام کو سیاسی خود مختاری دینے کے لیے پُرعزم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں