طالبان حکومت کو یکطرفہ طور پر قبول نہیں کریں گے، پاکستان کی عالمی برادری کو یقین دہانی

اپ ڈیٹ 19 اگست 2021
امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر نے کہا کہ طالبان کس طرح پیش آتے ہیں اور ان کا طرز عمل کیا رہتا ہے یہ بھی پاکستان کے فیصلے پر اثر انداز ہوگا — فائل فوٹو
امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر نے کہا کہ طالبان کس طرح پیش آتے ہیں اور ان کا طرز عمل کیا رہتا ہے یہ بھی پاکستان کے فیصلے پر اثر انداز ہوگا — فائل فوٹو

پاکستان کے امریکا اور اقوام متحدہ میں سفرا نے عالمی برادری کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اسلام آباد، افغانستان میں طالبان کی حکومت سفارتی طور پر قبول کرنے کے حوالے سے ان کے بالخصوص 'توسیعی ٹرائیکا' کے فیصلوں کی پیروی کرے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 'سی بی ایس نیوز' کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے کہا کہ طالبان کس طرح پیش آتے ہیں اور ان کا طرز عمل کیا رہتا ہے یہ بھی پاکستان کے فیصلے پر اثر انداز ہوگا۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے کہا کہ 'طالبان چاہتے ہیں کہ عالمی برادری انہیں قبول اور تسلیم کرے، ہمیں اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ ان کی طرف سے اچھے رویے کو یقینی بنایا جاسکے'۔

اسد مجید خان نے پاکستان کی جانب سے طالبان کی حکومت کو قبول کرنے کے حوالے سے سوال پر کہا کہ 'ہم امریکا سمیت عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور ہم عالمی برادری کی رہنمائی کی پیروی کرتے رہیں گے تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ افغانستان میں حالات کیسے بدلتے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان وفد کی حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ سے ملاقات

فاکس نیوز کو انٹرویو میں منیر اکرم نے تجویز دی کہ 'ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم کس طرح صورتحال کو متاثر کر سکتے ہیں اور ان سمتوں کو کس طرح تیار کر سکتے ہیں جو افغانستان، خطے اور عالمی برادری کے مفادات کے مطابق ہوں'۔

سفیر اسد مجید خان نے افغانستان سے حاصل ہونے والی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'یہ رپورٹس اس طرف اشارہ کر رہی ہیں اب تک طالبان نے انسانی حقوق اور لڑکیوں کی تعلیم جیسے مسائل پر عالمی برادری کی بات سنی ہے اور امید ہے کہ وہ ایسا کرتے رہیں گے'۔

منیر اکرم نے کہا کہ ہمیں ان کے رویے کی تصدیق کرنی چاہیے، انہیں ان یقین دہانیوں پر قائم رکھنا چاہیے اور ہمیں صورتحال پر نظر رکھنی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ یہ کس طرح تبدیل ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'لیکن یہ ایک خوش آئند حقیقت ہے کہ وہ یقین دہانیاں کرا رہے ہیں اور وہ ایسا اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عالمی برادری کی نظریں ان پر ہیں'۔

طالبان کی حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم کرنے سے متعلق سوال پر اسد مجید خان نے کہا کہ 'ہم صورتحال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں اور یقینی طور پر عالمی برادری خاص طور پر 'توسیعی ٹرائیکا' کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ اس مقام تک پہنچ سکیں جہاں انہیں تسلیم کرنے کی ضرورت ہو'۔

مزید پڑھیں: خطے میں افغانستان پر اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، شاہ محمود قریشی

طالبان کے کابل پر قبضے سے پاک ۔ امریکا تعلقات میں پیچیدگیاں آنے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'دونوں اتحادی پہلے بھی افغانستان پر قریبی طور پر کام کر چکے ہیں اور مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے'۔

منیر اکرم نے کہا کہ امریکا اور پاکستان پہلے ہی مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ ان لوگوں کے انخلا کو یقینی بنایا جاسکے جو طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں، امریکا اور پاکستان کابل میں نمائندہ حکومت بنانے کے لیے دوحہ میں بھی کام کر رہے ہیں۔

امریکا میں پاکستانی سفیر نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ پاکستان نے کابل کی طرف پیش قدمی میں طالبان کی مدد کی، افغانستان میں پیش آنے والے واقعات پر گہری نظر ڈالنے سے ایسے تاثر کا غلط ہونا ظاہر ہوتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں