بھارت: سوشل میڈیا پر طالبان کی حمایت کے الزام میں 14 افراد گرفتار

اپ ڈیٹ 22 اگست 2021
گرفتار ہونے والے 14 افراد میں آسام پولیس کا ایک کانسٹیبل بھی شامل ہے— فوٹو: شٹر اسٹاک
گرفتار ہونے والے 14 افراد میں آسام پولیس کا ایک کانسٹیبل بھی شامل ہے— فوٹو: شٹر اسٹاک

بھارت کے صوبے آسام کے 11 اضلاع میں مبینہ سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے افغانستان پر طالبان کے قبضے کی حمایت کرنے کے الزام میں 14 افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ 'اب تک پولیس نے آسام کے 11 اضلاع سے 14 افراد کو حراست میں لیا ہے جن میں ہیلا کنڈی سے تعلق رکھنے والے ایم بی بی ایس کا طالب علم بھی شامل ہے جو تیز پور میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہے'۔

گرفتار ہونے والوں میں آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) کے رہنما فضل کریم قاسمی بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: جامع طالبان حکومت کا قیام، ملاعبدالغنی مذاکرات کیلئے کابل پہنچ گئے

پولیس کی جانب سے گرفتاری کے بعد انہیں پارٹی کے جنرل سیکریٹری کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا۔

علاوہ ازیں گرفتار ہونے والے 14 افراد میں آسام پولیس کا ایک کانسٹیبل بھی شامل ہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ' ان افراد میں سے کچھ نے براہ راست طالبان کی حمایت کی جبکہ کچھ نے طالبان کی حمایت نہ کرنے پر بھارت اور مقامی میڈیا پر تنقید کی ہے، اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے'۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ گرفتار افراد کو بھارت کے انسداد دہشت گردی کے قانون کی خلاف ورزی کے الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا۔

آسام پولیس کی اسپیشل برانچ (ایس بی) آپریشن کی نگرانی کر رہی ہے۔

ان 14 افراد پر انسداد دہشت گردی قانون، غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے۔

ان پر آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مجرمانہ سازش اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل وائلیٹ باریوا نے کہا کہ آسام پولیس، سوشل میڈیا پر طالبان کے حامی تبصروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کر رہی ہے جو قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہیں۔

انہوں نے ٹوئٹ کی کہ 'ہم ایسے افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کر رہے ہیں، اگر کوئی ایسی بات آپ کے نوٹس میں آئے تو براہ کرم پولیس کو مطلع کریں'۔

یہ بھی پڑھیں: کابل ایئرپورٹ پر افراتفری کے دوران مزید 7 افغان باشندے ہلاک ہوگئے، برطانوی فوج

پولیس کے مطابق کم از کم 17 سے 20 سوشل میڈیا پروفائلز ملی ہیں جن پر طالبان اور افغانستان میں دہشت گردوں کی کارروائی کی حمایت کرنے والی پوسٹس موجود ہیں۔

پولیس نے بتایا کہ یہ پوسٹس ریاست کے 11 اضلاع سے بنائی گئیں جبکہ دیگر 3 لوگوں کی پروفائلز سے وابستہ افراد آسام سے باہر مقیم ہیں جن میں سے ایک دبئی، ایک سعودی عرب اور ایک ممبئی میں ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ وہ ان تین افراد کے بارے میں مزید تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ریاست سے باہر آباد ہیں اور ان کی تفصیلات انٹیلی جنس بیورو کو بھیجیں گے۔

خیال رہے کہ رواں سال کے آغاز میں امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے افغانستان سے امریکی و نیٹو افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد حال ہی میں انخلا کے قریب آتی ہوئی حتمی تاریخ، 31 اگست، سے قبل ہی طالبان نے اپنی کارروائیوں میں تیزی لاتے ہوئے پورے افغانستان پر قبضہ کرلیا ہے۔

طالبان نے 15 اگست کو کابل میں داخل ہو کر اقتدار پر قبضہ حاصل کیا تھا جبکہ صرف پنج شیر ہی واحد علاقہ ہے جہاں طالبان نے اب تک مداخلت نہیں کی ہے جبکہ طالبان کی جانب سے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ وہ افغانستان کی نئی حکومت میں تمام گروہوں کو شامل کریں گے اور خواتین کے حقوق کا احترام شریعت کے مطابق کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں