لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاون کیس کی نئی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کے خلاف دائر حکومتی متفرق درخواستوں پر درخواست گزاروں کو جواب جمع کروانے کی اجازت دے دی۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس امیر بھٹی کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے جے آئی ٹی کے خلاف انسپکٹر رضوان گوندل سمیت دو درخواستوں پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن: نئی جے آئی ٹی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کیلئے لارجر بینچ تشکیل

دوران سماعت جسٹس امیر بھٹی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا حکم کیا تھا، کیا دوسری جے آئی ٹی بن سکتی تھی یا نہیں اس پر دلائل دیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ عدالت کو پہلے مذکورہ سوالات پر مطمئن کریں پھر کیس کو آگے لے کر چلیں گے۔

جسٹس امیر بھٹی نے ریمارکس دیے کہ کیا جے آئی ٹی حکومت کی منظوری سے بنی یا نہیں، اس پر عدالت کو آگاہ کریں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مرحلہ وار کیس کو لے کر چلیں گے، ابھی ایسا ہو رہا ہے کہ مقدمے کی سماعت شروع سے شروع کرکے آخر تک جاتے ہیں تو پھر شروع ہو جاتا ہے۔

اس دوران جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے ایڈووکیٹ جنرل کو جے آئی ٹی کی منظوری کے منٹس کی فائل بھی آئندہ سماعت پر ساتھ لے کر آنے کی ہدایت کی۔

مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن: لاہور ہائیکورٹ نے نئی 'جے آئی ٹی' کو کام سے روک دیا

بعدازاں عدالت نے کیس کی آئندہ سماعت پر 5 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو اعتراضات اور دلائل کے لیے طلب کر لیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال 5 دسمبر کو پنجاب حکومت نے ماڈل ٹاؤن کیس میں ازسرِنو تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ میں اس سے متعلق درخواست نمٹا دی گئی تھی۔

پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں آئی جی موٹروے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔

کمیٹی کے دیگر اراکین میں آئی ایس آئی کے نمائندے لیفٹیننٹ کرنل محمد عتیق الزمان، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے لیفٹیننٹ کرنل عرفان مرزا، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) محمد احمد کمال اور ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز پولیس گلگت بلتستان قمر رضا شامل ہیں۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے تحقیقات کا فیصلہ کیا تھا اور احتساب عدالت کی اجازت کے بعد دو روز قبل لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ان سے دو گھنٹے تفتیش کی تھی۔

ماڈل ٹاؤن واقعے پر بنائی گئی جے آئی ٹی نے چند روز قبل سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا بھی بیان ریکارڈ کیا تھا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن

یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔

آپریشن کے دوران پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت کے دوران ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی بھی ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن:نئی جے آئی ٹی نے شہباز شریف، چوہدری نثار کو طلب کرلیا

درخواست گزار بسمہ امجد نے اپنی والدہ کے قتل کے خلاف سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل میں درخواست دائر کی تھی اور واقعے کی تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کی استدعا کی تھی۔

عدالت عظمیٰ کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل تھا۔

یہ بھی یاد رہے کہ 2014 میں ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

تاہم بعد ازاں عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد حکومت جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظر عام پر لے آئی۔

تبصرے (0) بند ہیں