مریم نواز کی ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کیلئے درخواست

اپ ڈیٹ 07 اکتوبر 2021
درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بار سے خطاب کا بھی حوالہ دیا گیا، رپورٹ - فائل فوٹو:اے پی
درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بار سے خطاب کا بھی حوالہ دیا گیا، رپورٹ - فائل فوٹو:اے پی

ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا پانے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں متفرق درخواست دائر کر دی جبکہ عدالت عالیہ کے رجسٹرار آفس نے درخواست پر 2 اعتراضات اٹھادیئے ہیں۔

مریم نواز نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ عرفان قادر کے ذریعے عدالت عالیہ میں درخواست جمع کرائی۔

درخواست میں انہوں نے مؤقف اپنایا کہ 'احتساب عدالت نے 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنائی تھی جو پاکستان کی تاریخ میں سیاسی انجینئرنگ اور قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کی پرانی مثال ہے'۔

درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بار سے خطاب کا بھی حوالہ دیا گیا۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ کیس کا جرمانہ وصول کرنے کیلئے نیب کا نواز شریف کے اثاثے فروخت کرنے کا حکم

ان کا کہنا تھا کہ 'جج نے کہا تھا چیف جسٹس سے رابطہ کیا گیا کہ ہم نے الیکشن تک نواز شریف اور اس کی بیٹی کو باہر نہیں آنے دینا'۔

انہوں نے کہا کہ 'جج کے مطابق چیف جسٹس نے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے عہدیداروں کو کہا کہ جس بینچ سے آپ مطمئن ہیں وہ بینچ بنا دیتے ہیں'۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ 'ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آئی ایس آئی نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے عائد الزامات کی تردید نہیں کی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جسٹس شوکت صدیقی نے بتایا تھا کہ جنرل فیض حمید نے ان سے 29 جون 2018 کو ملاقات کی تھی'۔

درخواست میں کہا گیا کہ 'جسٹس شوکت صدیقی کے بیان سے عدالتی فیصلے کے غیر جانبدارانہ ہونے پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے، جج ارشد ملک کی بھی ویڈیو وائرل ہوئی کہ ان پر نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بے حد دباؤ تھا'۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ 'عدالت قانون کی ان سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لے، تمام الزامات سے بری اور سزا کالعدم قرار دے'۔

رجسٹرار آفس کے اعتراضات

اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے ایون فیلڈ کیس میں ان کی سزا کو چیلنج کرنے کے لیے مریم نواز کی درخواست پر دو اعتراضات اٹھائے ہیں۔

رجسٹرار کے مطابق مریم نواز نے اپنی درخواست میں وہی درخواست کی ہے جو انہوں نے اپنی سزا کے خلاف اپنی ابتدائی اپیل میں کی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'مریم نواز صرف عدالت کی اجازت کے ساتھ اپیل میں تازہ بنیادیں اختیار کر سکتی ہیں'۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا خصوصی بینچ مریم نواز کی درخواست اور اعتراضات پر سماعت کرے گا۔

ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ

خیال رہے کہ 6 جولائی 2018 کو شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

اس کے علاوہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم ایون پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ سزائیں عام انتخابات سے صرف 19 دن قبل سنائی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کی اپیلیں خارج کرنے کیلئے نیب کی استدعا مسترد

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، جہاں 19 ستمبر 2018 کو ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے سزا دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

جس کے بعد 22 اکتوبر 2018 کو نیب نے نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر کی رہائی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائر صفدر کی سزا معطلی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیل خارج کردی تھیں۔

جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل

واضح رہے کہ 6 جولائی 2019 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

لیگی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

ویڈیو میں ارشد ملک کو اعتراف کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ سابق وزیراعظم نواز کو العزیزیہ ریفرنس میں 'دباؤ اور بلیک میل' ہوکر سزا سنائی اور نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔

تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کی تھی۔

جج ارشد ملک نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے پریس کانفرنس کے دوران دکھائی جانے والی ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

جسٹس شوکت صدیقی کی متنازع تقریر

یاد رہے کہ 21 جولائی کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کی مرکزی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) عدالتی امور میں مداخلت کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے ہمارے چیف جسٹس تک رسائی حاصل کرکے کہا تھا کہ ہم نے نواز شریف اور ان کی بیٹی کو انتخابات تک باہر نہیں آنے دینا‘۔

اپنے خطاب کے دوران بغیر کسی کا نام لیے انہوں نے الزام لگایا کہ ’مجھے پتہ ہے سپریم کورٹ میں کس کے ذریعے کون پیغام لے کر جاتا ہے، مجھے معلوم ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا احتساب عدالت پر ایڈمنسٹریٹو کنٹرول کیوں ختم کیا گیا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں