چینی اور پیٹرول بحران کے ذمہ داران پر بھاری جرمانے کیے گئے ہیں، شہزاد اکبر

16 اکتوبر 2021
انہوں نے کہا کہ حکومت نے تاریخ میں پہلی بار چینی کی فکس قیمت مقرر کی ہے — فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے کہا کہ حکومت نے تاریخ میں پہلی بار چینی کی فکس قیمت مقرر کی ہے — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ شوگر کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) نے شوگر ملز کے پانچ سالہ آڈٹ کے بعد 619 ارب روپے کے جرمانے عائد کیے جبکہ مسابقتی کمیشن نے شوگر مافیا کی کارٹلائزیشن کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 44 ارب روپے کا جرمانہ کیا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران شہزاد اکبر نے چینی کمیشن کی تحقیقات کی روشنی میں بحران کی ذمہ دار شوگر ملوں اور سٹہ بازوں کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے شوگر تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا تھا جس کے بعد اسی کمیشن کی تجویز کی روشنی میں وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن ایکٹ 2017 کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دیا جس نے تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ وفاقی کابینہ کو پیش کی تھی، اس میں بے شمار ہوش ربا انکشافات ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن نے بتایا کہ چینی بلیک میں فروخت کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ٹیکس میں بھی نقصان ہوتا ہے، ایف بی آر کی مدد سے پانچ سال کا ٹیکس آڈٹ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں شوگر ملز پر 619 ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ پچھلے سال ٹیکس کی مد میں چینی کی صنعت سے حاصل ہونے والی رقم دوگنی تھی، حکومت پاکستان نے کمیشن کو حکم دیا تھا کہ کارٹیلائزیشن کی تحقیقات کریں جس کے نتیجے میں انہوں نے شوگر ملز پر 44 ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شوگر کمیشن رپورٹ غیرقانونی قرار دینے کا سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل

ان کا کہنا تھا کہ کارپوریٹ، منی لانڈرنگ اور دھوکہ دہی کے کچھ کیسز وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو دیے گئے تھے جس نے ملز کے خلاف مجرمانہ کارروائیاں کیں۔

انہوں نے کہا کہ سٹہ بازوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ایف بی آر کو ملنے والے ثبوت کی روشنی میں سٹہ بازوں پر 13 ارب 80 کروڑ روپے کا جرمانہ کیا گیا، ان کے کاروبار روک دیے گئے ہیں اور سٹہ بازی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔

مشیر احتساب نے کہا کہ حکومت نے تمام کسانوں کے واجبات ادا کردیے ہیں، اس سے قبل قوانین اور قیمت مقرر ہونے کے باوجود بھی کسانوں کو ان کے واجبات نہیں دیے جاتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے تاریخ میں پہلی بار چینی کی فکس قیمت مقرر کی ہے، اس میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اب انہیں نافذ کرنا ہے جس کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چینی کی قیمتوں کے حوالے سے ایف بی آر کی جانب سے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں ان میں ‘ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم ’شامل ہے، اس نظام کا نفاذ جدید آلات کی مدد سے شوگر ملوں پر ہوگا، اس میں شوگر کی مینوفیکیچرنگ کے آغاز سے اختتام تک مانیٹرنگ کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: چینی بحران رپورٹ: 'جہانگیر ترین، مونس الہٰی،شہباز شریف فیملی کی ملز نے ہیر پھیر کی'

ان کا کہنا تھا کہ حکومت، گنے سے حاصل ہونے والی اشیا کے لیے لیب بنا رہی ہے، ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا اس میں کوئی اضافی رقم نہیں لگائی جائے گی بلکہ یہ گنے کی فروخت کے نتیجے میں ملنے والے ٹیکس سے ہی بنے گی۔

’او ایم سیز کی جانب سے پیٹرول کی ذخیرہ اندوزی بحران کا باعث بنی‘

پیٹرولیم مصنوعات پر بات کرتے ہوئے شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ پیٹرل کی قیمتیں کم ہونے پر پاکستان کے شہروں میں پیٹرول کا بحران پیدا ہوا تھا ہے جس پر حکومت پاکستان نے کمیشن بنایا اور کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ کے مقرر کردہ ٹی او آرز پر تحقیقات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اراکین کی تحقیقات کے مطابق پیٹرول کی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) نے ذخیرہ اندوزی کی تھی اور قیمت کم ہونے کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچنے دیا۔

کمیشن کی تحقیقات کے بعد ملک بھر میں 2 ہزار سے زائد غیر قانونی پیٹرول پمپس کو بند کیا گیا۔

مزید پڑھیں: پیٹرولیم بحران رپورٹ: کمیشن کی اوگرا تحلیل کرنے کی سفارش

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 45 سے زائد او ایم سیز ہیں، ماضی میں ان کمپنیوں کو بہت زیادہ لائسنسز دیے گیے اور نتائج سے معلوم ہوا کہ غیر قانونی پیٹرول پمپ ہیں جو ٹیکس ادا نہیں کر رہے ہیں، جنہیں بند کرنے کے بعد پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے منافع میں 36 فیصد اضافہ ہوا جبکہ دیگر ایم این سیز بھی منافع حاصل کر سکی۔

مشیر احتساب نے کہا کہ دوسری چیز یہ تھی کہ جن بحری جہازوں میں پیٹرول آتا تھا ان کی برتھنگ نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ساڑھے 3 ارب روپے کا نقصان ہوا، اب ان تمام کمپنیوں سے وصول کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقات کرنے پر معلوم کیا کہ او ایم سیز پیٹرول ذخیرہ کر رہی ہیں، ان اعداد و شمار کے بعد ان پر ساڑھے 5 ارب کا جرمانہ عائد کیا جائے گا، اس معاملے میں ایف آئی اے اور اوگرا کو اقدامات کے حکم دیے گئے ہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ براڈشیٹ کی انکوائری کے لیے جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا گیا تھا جس میں کچھ خاص شواہد سامنے نہیں آئے بلکہ ہمیں انہیں جرمانے کی مد میں 44 ارب روپے سے زائد رقم ادا کرنی پڑی۔

مزید پڑھیں: ملک میں پیٹرول کا ذخیرہ تشویشناک حد تک کم ہوگیا

انہوں نے کہا کہ کمیشن نے رپورٹ میں معاہدے کے وقت غفلت کرنے والے کچھ افراد پر براہ راست ذمہ داری عائد کی تھی، انکوائری رپورٹ میں یہ نشاندہی کی گئی 2009 میں پہلا نوٹس دیا گیا اور 2015 تک خط و کتابت ہوتی رہی، اس دوران پاکستان کے مفاد کا مقدمہ صحیح طرح نہیں لڑا گیا۔

کمیشن کا کہنا تھا جو تحقیقات ہوئی بھی ہیں اس میں براڈشیٹ نے کوئی کام نہیں کیا اس لیے ان کی خدمات ختم کردی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں غفلت کی نشاندہی کے لیے تحقیقات کی جارہی ہیں جس میں حکومتی اراکین، ایف آئی اے اور ماہرین شامل ہیں، اس میں جس کی بھی کوتاہی ہوگی اس پر ذمہ داری عائد کی جائے گی۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا دیگر چھوٹے معاملات پر بھی تحقیقات جاری ہیں جس میں راولپنڈی رنگ روڈ شامل ہے، تمام تر خرابیاں ختم کرنے بعد وزیر اعظم اس کا افتتاح کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں