میڈیا غلط تشریح کر رہا ہے، فرانسیسی سفیر کے معاملے سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں، مفتی منیب الرحمٰن

اپ ڈیٹ 04 نومبر 2021
انہوں نے کہا کہ فرانسیسی سفیر کی ملک سے بے دخلی کا معاملہ پارلیمنٹ کے حوالے کردیا — فائل فوٹو / ڈان نیوز
انہوں نے کہا کہ فرانسیسی سفیر کی ملک سے بے دخلی کا معاملہ پارلیمنٹ کے حوالے کردیا — فائل فوٹو / ڈان نیوز

مفتی منیب الرحمٰن نے حکومت اور کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مابین معاہدے میں آرمی چیف کے رویے کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ مسئلے کو احسن طریقے سے حل کرنے کے خواہش مند تھے تاہم ہم فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرنے کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین نے کہا کہ قومی مفاد کے پیش نظر دونوں فریقین کے مابین کردار ادا کرنے کی پیشکش قبول کی کیونکہ مذاکرات سے قبل بعض وزرا طاقت کا استعمال کرکے مظاہرین کے خاتمے کا تذکرہ کر رہے تھے۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کو ’کالعدم‘ کی فہرست سے نکالنے کیلئے پنجاب کابینہ کا لائحہ عمل تیار

انہوں نے آرمی چیف سے متعلق بتایا کہ ’میں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو لال مسجد کا واقعہ یاد کرایا کہ رات 12 بجے تک تمام لبرلز حکومت کو ملامت کر رہے تھے کہ حکومت کی رٹ کہاں ہے اور جب آپریشن شروع ہوا تو صبح تمام لبرلز حکومت مخالف صف میں کھڑے تھے‘۔

فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے کے مطالبے کے حوالے سے مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ ’ہم اس مطالبے سے دستبردار نہیں ہو رہے بلکہ میڈیا اس حوالے سے ہماری باتوں کی غلط تشریح کر رہا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے کا معاہدہ حکومت کی جانب سے کیا گیا تھا جس کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر تصادم ہوا‘۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ فرانسیسی سفیر کی ملک سے بے دخلی کا معاملہ پارلیمنٹ کے حوالے کردیا گیا اور حکومت نے ہمارے مطالبے کو تسلیم کیا ہے۔

مفتی منیب الرحمٰن نے ٹی ایل پی کو پاکستان کی وفادار جماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹی ایل پی پر بھارتی فنڈنگ کا الزام لگایا جبکہ کسی پاکستان کو غدار کہنا سب سے بڑی گالی ہے اور اسی وجہ سے فواد چوہدری کو ناپسند کرتا ہوں‘۔

واضح رہے کہ یکم نومبر مفتی منیب الرحمٰن نے ٹی ایل پی کے مطالبات پر واضح انداز میں کہا تھا کہ میڈیا پر کہا گیا فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے، سفارت خانہ بند کرنے اور یورپی یونین سے تعلقات منقطع کرنے کے مطالبات ہیں جو سراسر جھوٹ تھا۔

انہوں نے ٹی ایل پی سے مذاکرات کے حوالے سے کہا تھا کہ ’مطالبہ تھا کہ حکومت کے مجاز اور سنجیدہ نمائندوں پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے، جس کے پیچھے ان کے پاس ریاست اور حکومت کی طرف سے فیصلہ کرنے کا پورا پورا اختیار ہو، اس لیے تحریک لبیک پاکستان اور اہلسنت کے لوگ ڈسے ہوئے تھے کہ صبح معاہدہ کیا جاتا اور شام کو ٹی وی پر بیٹھ کر کہا جاتا کہ اس معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘۔

مزید پڑھیں: پیپلزپارٹی نے ٹی ایل پی اور حکومت کا معاہدہ ’ریاست کا جھک جانا‘ قرار دے دیا

علاوہ ازیں آج لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا تھا کہ میرے ساتھ جب ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کی بات چیت ہوئی تو وہ فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے اور سفارتخانہ بند کرنے کے مطالبے پر قائم تھے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ ’میں نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں، میں اس پر قائم ہوں جبکہ اب 2 وزیر مقرر ہوگئے ہیں، وہ آپ کو تازہ صورتحال پر جواب دیں گے‘۔

خیال رہے کہ 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران مفتی منیب الرحمٰن نے کہا تھا کہ معاہدے کی تفصیلات آئندہ ہفتے سامنے آجائیں گی جبکہ معاملات کی نگرانی کے لیے اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کی سربراہی وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کی تفصیلات مناسب وقت پر سامنے آجائیں گی اور آپ عملی نتائج دیکھیں گے، اس میں مصالحت کار کا کردار ادا کیا۔

مفتی منیب الرحمٰن نے زور دیا تھا کہ یہ معاہدہ ایسا نہیں ہے کہ دوپہر میں معاہدے طے پایا ہو اور شام کو منسوخ کردیا گیا ہو، حکومتی صفوں اور اپوزیشن میں سے جس کسی نے بھی طاقت کے استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں